قومی شناخت : حقوق کی بات

نئے پارلیمانی سال کے موقع پر ضروری ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں خواتین کی شمولیت کا جائزہ لیا جائے اور انتخابی فہرستوں میں خواتین کے اندراج کو بہتر بنانے کے لئے عزم کا اظہار کیا جائے۔ سال دوہزارسترہ کی چھٹی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں خواتین کی تعداد تقریبا ا±نچاس فیصد ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے انسانی حقوق پورا کرنے کے لئے نمایاں کوششوں کے باوجود‘ ملک میں صنفی مساوات کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ابھی بھی بہت کچھ کرنے (عملی اقدامات) کی ضرورت ہے۔ مختلف شعبوں میں متاثر کن کامیابیوں کے باوجود انتخابی فہرستوں میں مرد اور خواتین رائے دہندگان کے درمیان فرق برقرار ہے۔ پاکستان کے متنوع منظرنامے میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) نہ صرف شناخت کے لئے ایک اہم دستاویز ہے بلکہ بہت سے سماجی فوائد کا حصول اور سیاسی شمولیت بھی اِسی کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ یہ شناختی کارڈ سماجی تحفظ کے پروگراموں کا ’گیٹ وے‘ بھی ہے جو مالی طور پر معاشرے کی کمزور برادریوں کی ترقی کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کی خدمات سے لے کر تعلیم کے شعبے میں مدد اور مہارت جیسے فوائد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے درست سی این آئی سی کا ہونا شرط ہے۔ یہ شناخت نہ صرف اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قومی نظام میں افراد کا حساب کتاب رکھا جائے بلکہ سماجی بہبود کے اقدامات کے ہدف اور اِن اہداف کے مو¿ثر نفاذ میں بھی سہولت فراہم کی جائے۔ مثال کے طور پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی جانب سے دی جانے والی مالی مدد اور مراعات سے خواتین کے مستفید ہونے والوں کے لئے سی این آئی سی کا ہونا لازمی شرط ہے۔ یہ نہ صرف ہدف کی مدد کو یقینی بناتا ہے بلکہ سی این آئی سی حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافے کے لئے ایک محرک کے طور پر بھی کام کرتا ہے‘ جس کے بعد وسیع تر معاشرتی زندگی میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سی این آئی سی‘ خواتین کی قومی سطح پر صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ مالی شمولیت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے‘ اور اِس سے خواتین کو بینکاری خدمات تک رسائی اور براہ راست سرکاری سبسڈی حاصل ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ معاشی سرگرمیوں میں مشغول ہوتی ہیں چونکہ اِس وقت صنفی مساوات کے لئے جدوجہد ہو رہی ہے‘ اِس لئے یہ بات یقینی ہے کہ خواتین کو ا±ن کے سماجی تحفظ کے جالوں سے فائدہ اٹھانے کے مساوی مواقع حاصل ہوں جو کہ بہت اہم ہے۔ سماجی فوائد کے علاو¿ہ‘ سی این آئی سی رجسٹریشن افراد کو بنیادی جمہوری حق یعنی ووٹ کا حق بھی دیتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پر ووٹ ملک کی تقدیر کا تعین کر سکتا ہے‘ انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت معنوی لحاظ سے بھی بہت ہی اہم ہے۔ سیاسی حقوق میں صنفی عدم مساوات واضح ہوتی ہے۔ خواتین نے اپنے حق رائے دہی اور عوامی عہدوں کے لئے طویل جدوجہد کی ہے۔ پاکستان میں قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں خواتین ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اس اعداد و شمار میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے 2022ئ کے تباہ کن سیلاب کے دوران اپنا سی این آئی سی کھو دیا تھا۔سال دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات کے مقابلے میں سال 2024ئ کے عام انتخابات میں انتخابی فہرستوں میں خواتین کی مطلق تعداد بڑھانے کے لئے پیش رفت ہوئی ہے۔ اس فرق کے جواب میں اور الیکشن ایکٹ 2017ئ کے سیکشن 47(2) اور سیکشن 47(3) کے مطابق نادرا نے خواتین کے سی این آئی سی اور ووٹر رجسٹریشن مہمات کو ترجیح دی ہے جو قومی اور مقامی سطح پر ایک اہم کوآرڈی نیشن اور عملدرآمد میکانزم کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ملک کے جمہوری عمل میں خواتین کی شرکت مضبوط بنانے کے علاو¿ہ سی این آئی سی حاصل کرنے کی اہمیت کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہوا ہے اور اِس کے نتیجے میں لاکھوں خواتین کو پاکستان کی انتخابی فہرستوں میں شامل کیا گیا ہے تاکہ ووٹر بیس کو بڑھایا جا سکے۔ نادرا نے معاشرے کے تمام طبقوں بالخصوص خواتین اور خواجہ سراو¿ں کی رجسٹریشن میں اضافے کے لئے مخصوص شعبہ ”انکلوسیو رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ (آئی آر ڈی)“ بھی قائم کیا ہے۔ آئی آر ڈی معاشرے میں منصفانہ شرکت کے لئے افراد کو بااختیار بنانے میں شناخت کے اہم کردار کے بارے میں بیداری پیدا کرکے پسماندہ برادریوں کی رجسٹریشن کو فعال طور پر فروغ دیتا ہے۔ موبائل رجسٹریشن وینز‘ میڈیا مہمات اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت جیسے مختلف اقدامات کے ذریعے آئی آر ڈی رجسٹریشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قومی فیصلہ سازی میں صنفی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے ایک اہم کامیابی 2023ئ میں حاصل ہوئی جب خواتین کی رجسٹریشن پچاس فیصد جیسی بلند سطح تک پہنچ گئی تھی۔اپنے آٹھ ریجنل ہیڈ آفسز (آر ایچ اوز) اور ملک بھر میں 837 نادرا رجسٹریشن سینٹرز (این آر سیز) کے وسیع نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ 222 موبائل رجسٹریشن وینز (ایم آر ویز) کے ذریعے ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کا ایک مقصد و ہدف یہ بھی ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل انتخابی فہرستوں میں پایا جانےو الا صنفی فرق ختم کیا جائے۔ قومی شناختی کارڈ رجسٹریشن میں صنفی فرق ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حائل رکاوٹوں کو سمجھا جائے اور انہیں بتدریج ختم کیا جائے جو خواتین کو اس اہم دستاویز (سی این آئی سی) کے حصول سے روکتی ہیں۔ اِن میں غیرموافق ثقافتی اقدار‘ شعور یا آگاہی کی کمی اور لاجسٹک چیلنجز شامل ہیں۔ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے درمیان تفریق خواتین کو سماجی تحفظ کے پروگراموں‘ معاشی سرگرمیوں‘ صحت اور تعلیم کی خدمات میں امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے غیر محفوظ بناتی ہے لہٰذا ’سی این آئی سی‘ رجسٹریشن کے عمل میں صنفی حساس پالیسیوں کو ضم کرنے سے زیادہ جامع نظام مرتب کرنے یا تشکیل دینے میں یقینی طور پر مدد مل سکتی ہے جس کے لئے نادرا مراکز (رجسٹریشن مراکز) کے اوقات کار میں اضافہ‘ رجسٹریشن کے عمل کے دوران خواتین کی رازداری اور تحفظ کو یقینی بنانا اور سی این آئی سی رجسٹریشن کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنا شامل ہوسکتا ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے نادرا‘ الیکشن کمیشن اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کاوشیں کر سکتا ہے۔ سی این آئی سی رجسٹریشن میں صنفی فرق کو دور کرکے نہ صرف خواتین کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے بلکہ اِس سے ملک کا جمہوری تانا بانا بھی مضبوط ہو سکتا ہے اور اب جبکہ آنے والی حکومت ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو ’سی این آئی سی رجسٹریشن‘ کے طریقہ¿ کار میں تبدیلی بھی ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی ایک بھی خاتون اپنے قومی سماجی اور سیاسی اختیارات ا±ور اپنے حقوق سے محروم نہ رہ جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن حکیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔