تبدیلی کیسے آئے گی؟

جب ملک بھر میں ریلوے کا نظام وسیع کر کے وزراءبشمول وزرائے اعلیٰ ‘گورنرز‘ وزیر اعظم اور صدر ملک کے اندر صرف ریلوے کے ذریعے سفر کرنا شروع کر دیں گے‘ جب ملک کے تمام شہروں میں انڈر گراﺅنڈ ریلوے کا نظام بچھا کر مسافروں کی جان نجی سیکٹر میں چلنے والی مہنگی ٹیکسیوں اور بوسیدہ بسوں سے چھڑا دی جائے گی ‘جب ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر موروثی سیاست کا انتخابی اصلاحات کر کے خاتمہ کر دیا جائے گا ‘ جب اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کی تعنیاتی میں ایم این‘ ایز ایم پی ایز اور سینیٹرز کی سفارش نہیں مانی جائے گی۔
 جب ملک کے تمام اداروں میں ایسے افسران و اہلکاروں کی پوسٹنگ کی جائے گی کہ جو اچھی عمومی شہرت کے مالک ہوں گے۔ تجربہ میں آیا ہے کہ پولیس کے نچلے کیڈرز میں ہر صوبے میں جو بھرتی کی جاتی ہے اس میں حد درجہ سیاسی مداخلت ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چونکہ میرٹ پر پولیس فورس میں بھرتی نہیں کی جا رہی اس وجہ سے وہ جرائم پیشہ لوگوں کا قلع قمح کرنے میں بے بس اور ناکام نظر آ رہی ہے اور بار بار امن عامہ قائم رکھنے کے لئے سول انتظامیہ کو فرنٹیر کور یا فرنٹیر کانسٹیبلری کی پلاٹونز کو اس کی معاونت کےلئے طلب کرنا پڑتا ہے اس لئے ملک کا امن عامہ اس وقت اچھا ہوگا اور اس میں اس وقت تبدیلی آ ئے گی جب پولیس کے نچلے کیڈرز میں میرٹ اور صرف میرٹ پر بھرتی شروع کر دی جائے گی جس طرح فوج میں کی جا رہی ہے ۔
ملک میں تبدیلی اس وقت آئے گی جب حکمران طبقے کے لوگ اسی قسم کا رہن سہن اور بودوباش اختیار کریں گے کہ جو ملک کے ایک عام شہری کا ہے۔ ملک میں تبدیلی اس وقت آئے گی جب ماں باپ اپنی اولاد کی صرف تعلیم پرہی نہیں بلکہ تربیت پر بھی توجہ دیں گے ‘جب ہر محنت کش کی کماز کم ماہانہ تنخواہ مارکیٹ میں سونے کے ایک تولہ قیمت کے برابر ہوگی یا پھر ملک کے ہر فرد کیلئے ہیلتھ کئیر health care کا نظام انگلستان میں رائج نظام کی طرز پر ڈھال دیا جائے گا۔
جب ملک میں پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی کی حد تک تعلیم مفت کر دی جائے گی یہ سب کچھ ممکن ہے بشرطیکہ ملک میں قدرتی وسائل اور دولت کی تقسیم مساوی بنیادوں پر کر دی جائے‘ اب تک تو ہر حکمران نے بس عوام کو سبز باغ ہی دکھائے ہیں ۔ان ابتدائی کلمات کے بعد چند اہم قومی اور عالمی امور پر تبصرہ بے جا نہ ہوگا ‘ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اور ایک لمبے عرصے تک 1948 ءسے لے کر 1980 ءکی دہائی کے آخر تک ہماری ہاکی ٹیم ہر عالمی سطح کے ہاکی ٹورنمنٹ میں وکٹری اسٹینڈ تک ضرور پہنچی‘ بالفاظ دیگر اس نے سونے چاندی یا کانسی کا تمغہ ضرور جیتا اب کچھ عرصے سے وہ روبہ زوال ہے۔ گوادر کی بندرگاہ بھارت کی آنکھوں میں بھی کھٹکتی ہے اور امریکہ کی آنکھوں میں بھی‘ بھارت جانتا ہے کہ گوادر پاکستان کی معیشت کو چار چاند لگا دے گا امریکہ کو دکھ اس بات کا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کا منصوبہ اسکے ازلی دشمن چین کا سی پیک کے تحت بننے والا وہ پراجیکٹ ہے جو اس خطے میں چین کی قدر و منزلت مزید بڑھادے گا۔ اگلے روز بی ایل اے نے اس منصوبے کے دفاتر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ‘اس دہشت گردی کے پیچھے امریکہ اور بھارت کے علاوہ اور بھلا کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟ تبدیلی تب آ ئے گی جب حصہ بقدر جثہ کے فارمولہ کی بنیاد پر ملک میں ٹیکس کا نظام نافذ کیا جائے گا۔ 


جب اسراف کا خاتمہ ہو گا‘ اس ضمن میں ایک واقعہ درج ذیل ہے بہلول دانا کا نام آپ نے یقیناً سنا ہو گا وہ تھا تو عباسی خاندان کے بادشاہ ہارون رشید کا قریبی رشتہ دار پر اپنی زندگی ایک مجذوب کی طرح گزارتا تھا۔

 ایک مرتبہ وہ اس محل کے قریب سے گزر رہا تھاجو ہارون رشید نے تعمیر کروایا تھا کہ ہارون کی نظر اس پر پڑی اس نے بہلول سے پوچھا یہ تو بتا بھلا تم کو یہ میرا محل کیسا لگا ‘بہلول نے جو جواب دیا وہ ہمارے ان تمام لوگوں کے لئے مشعل ہدایت ہے جو محل نما گھروں میں رہتے ہیں یا انہیں تعمیر کر رہے ہیں ‘بہلول نے ہارون کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ اگر تم نے یہ محل حرام کی کمائی سے بنایا ہے تو خیانت کی ہے اور اگر حلال کی دولت سے اسے تعمیر کیا ہے تو تم اسراف کے مرتکب ہوئے ہو ۔