طولانی دن اور چھوٹی راتیں 

گزرے کل سے دن اور رات کا دورانیہ برابر ہو گیا ہے‘ یعنی وہ بارہ بارہ گھنٹوں کے ہو گئے ہیں اور اب دن کا دورانیہ دھیرے دھیرے زیادہ اور رات کا آہستہ آہستہ کم ہونا بھی شروع ہو گیا ہے اور موسم گرما کی آ مد آمد بھی ہے‘ اس موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ یہ پیشنگوئی بھی کی گئی ہے کہ 2024 ءیعنی سال رواں میں جو گرمی پڑے گی اس کی شدت سال گزشتہ کی گرمی سے بہت زیادہ ہوگی ‘جس سے گلیشیئر وسیع پیمانے پر پگھل کر سیلابی شکل اختیار کرسکتے ہیں‘ اس لئے ضروری ہے کہ متعلقہ حکام ابھی سے پیش بندی کر کے ضروری حفاظتی اقدامات اٹھا لیں تاکہ سیلابوں اور سیلابی بارشوں سے فزیکل انفرا سٹرکچر کو ممکنہ نقصانات کم سے کم ہوں‘ لوگوں نے امسال بہار کا منہ تک نہیں دیکھا جسے موسم سرما کھا گیا ہے رمضان شریف کا دوسرا اور تیسرا عشرہ شاید اتنا خنک نہ ہو کہ جتنا اب تک تھا ۔یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے اور پارلیمانی نظام حکومت کا المیہ بھی کہ اگر وفاق میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت ہو اور صوبوں میں دوسری جماعتوں کی تو صوبوں میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تقرریوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اختلاف رائے رہتا ہے کہ جس طرح آج کل بھی پیدا ہو گیا ہے ‘عام تاثر یہ ہے کہ اس قسم کے حالات میں وفاقی حکومت صوبوں میں چیف سیکرٹری جیسے کلیدی عہدہ پر اپنا بندہ اس لئے تعنیات کرتی ہے کہ وہ صوبائی حکومت کے ہر اقدام کے اسے آ گاہ رکھے جبک صوبائی حکومت اس منصب پر اپنا منظور نظر افسر تعنیات کرنا چاہتی ہے۔ اب ذرا چند الفاظ قومی ائر لائن کے بارے میں بھی ہو جائیں کہ جس کی نجکاری کے آج کل بہت چرچے ہیں ‘پی آئی اے میں فی جہاز ملازمین کی تعداد 145 نفر ہونی چاہیے پر سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اس میں بے دریغ بھرتی کی گئی جس کی وجہ سے 2017 ءمیں یہ تعداد فی جہاز 550 ہو گئی اس تعداد کو گھٹا کر پانچ سالوں میں 2022 ءتک 260 ہر لایا گیا جس سے قومی ائر لائن کو 8 ارب روپے کی بچت ہوئی ‘ پر اتنے لمبے عرصے تک جو اسے نقصان ہوا اس کی تلافی تو تب ہی ہو سکتی تھی کہ جو لوگ اتنے وسیع پیمانے پر اس میں غیر ضروری بھرتیوں کے ذمہ وار تھے ان کو سخت سزا دے دی جاتی ۔ چین نے اگر اپنے ہاں کرپشن ختم کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کرپشن کی سزا موت ہے۔یاد رہے کہ سخت سزا کے بغیر کسی ادارے میں بھی آپ مالیاتی ڈسپلن پیدا نہیں کر سکتے ‘یہ تو ہم نے صرف ایک ادارے کی بات کی ہے یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ایک مستند تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 88 سرکاری کارپوریشنوں میں سے صرف 50 منافع بخش ہیں باقی جن میں قومی ائر لائن بھی شامل ہے وہ اربوں روپوں کا نقصان کر رہی ہیں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے طبقوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پشاور سے تعلق رکھنے والے برصغیر کے لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کے پشاور میں واقع آ بائی گھرکی بحالی کا کام ابھی تک شروع نہ ہو سکا اور قومی ورثہ قرار دینے کے باوجود حکومت نے فنڈز جاری نہیں کئے ‘یاد رہے کہ 2014 ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم نے ان کے مکان کو قومی ورثہ کی یادگار قرار دیا تھا۔ وطن عزیز میں ایک نئے وزیر خزانہ نے کام شروع کر دیا ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر ان کو اور عام پبلک کو درج زیل حقیقت سے روشناس کرنے کی ایک سعی کی جائے اس ملک میں اگر کوئی صحیح معنوں میں حکومت کو ٹیکس ادا کر رہا ہے تو وہ صرف تنخواہ دار طبقہ ہے کہ اس کے پاس فرار کا کوئی رستہ نہیں ہے خود ایف بی آر کا اپنا بیان ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران تنخواہ دار طبقے نے 158 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے جو کہ برآمد کنندگان exporters کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹیکس کے مقابلے میں243 فیصد زیادہ ہے ‘یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ٹیکس وصولیوں کا ایک بڑا حصہ indirect ٹیکسوں کا ہے جو ہر امیر اور غریب سے وصول کئے جاتے ہیں مثلاً گھی شکر ‘تیل ‘دالیں‘ چائے کی پتی وغیرہ نوعیت کی کئی اشیا چند سو روپے یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور بھی خریدتا ہے اور ارب پتی شخص بھی اور ایک ہی شرح سے دونوں جنرل سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں جو بات حیران کن ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ جنرل سیلز ٹیکس ہے تو پھر یہ صارف سے کیوں وصول کیا جاتا ہے یہ تو پھر فروخت کنندہ سے وصول کرنا چاہیے۔

 اگر حکومت نے ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنا ہے تو ہر قسم کی معاشی سرگرمی کا اندراج کرنا ہوگا اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ کے اندر لانے کے واسطے کیش کی ادائیگی ختم کر کے آ ن لائن اور digital پےمنٹ کو لازمی کرنا ہوگا۔
دکان داروں کو پابند کرنا ہو گا کہ جہاں آ ن لائن پےمنٹ کی سہولت نہ ہو گی وہاں کاروبا ر کی اجازت نہ ہوگی جب پے منٹ اکاﺅنٹ میں جائے گی تو تو روزانہ ایک لاکھ کمانے والا یہ نہیں کہہ سکے گا کہ اس نے ایک ہزار کمایا ہے اسی طرح سروسز کے شعبے میں بھی آ ن لائن فامولا لاگو کرنا ہو گا جب تک ملک کی معیشت کو دستاویزی نہیں کیا جائے گا‘ ملک میں منصفانہ ٹیکس کے نفاذ کا نظام ایک خواب ہی رہے گا‘ اگلے روز لاہور میں ممتاز پاکستانی کرکٹر سعید احمد انتقال کر گئے وہ ایک نہایت سٹائلش بلے باز تھے اور 1950ءکی دہائی میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں اکثر ون ڈاﺅن کے بعد بیٹنگ کرنے آیا کرتے تھے ان کے بھائی یونس احمد نے بھی پاکستان کرکٹ ٹیم میں بطور بلے باز بیٹنگ کی ہے ان کے زمانے میں ابھی ون ڈے کرکٹ کا چلن عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔