ترقیاتی حکمت عملی

پاکستان کی نظریں ایک محفوظ و خوشحال مستقبل پر ہیں جس کے لئے محدود معاشی مواقعوں کو وسیع کیا جا رہا ہے اور معاشی مستقبل کی بہتری کے لئے اقدامات و اصلاحات جیسی کوششیں بھی جاری ہیں۔ کئی دہائیوں کی ناقابل تسخیر صلاحیت اور ضائع ہونے والے مواقعوں نے معاشی بہتری کو مشکل بنایا ہے۔ اِس کے باوجود پاکستان ترقی کے بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی اوسط عمر صرف 20.6 سال ہے۔ جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے چوراہے پر اپنے تزویراتی محل وقوع سے فائدہ اٹھانے کا تصور کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اِن فوائد کو حقیقت میں تبدیل کیا جائے۔ ایک اچھی طرح سے متعین‘ جامع اقتصادی ترقی کی حکمت ِعملی کی ضرورت کبھی بھی اس سے زیادہ واضح نہیں رہی۔ سرمایہ کاری‘ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور قیمتوں میں استحکام کے لئے مربوط روڈ میپ کے بغیر‘ پاکستان کا ایسے مستقبل کی طرف بڑھنے کا خطرہ ہے جہاں اس کے شہریوں کے لئے معاشی مواقع وسیع نہیں بلکہ محدود ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی روایتی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی‘ جس کے تین بنیادی نکات ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے اخراجات‘ مضبوط روپیہ اور گھریلو کھپت کا فروغ۔ سال دوہزارچوبیس کے لئے یہ حکمت عملی کافی نہیں ہو گی اور اِس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ مالی مشکلات بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر منصوبوں کو محدود کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ ارب ڈالر ہیں جو بمشکل چھ ہفتوں کی درآمدات کو پورا کر سکتے ہیں۔ ذخائر کی یہ کمی روپے کی قدر میں اضافے کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کمزور کرتی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اضافے کے لئے نئے نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ نئی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی میں پانچ اہم شعبوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔ نجکاری‘ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری‘ سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں (پی ایس ایز) کو دی جانے والی سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنا‘ اندرون ملک کارٹیلز کو توڑنا اور آزاد تجارت کا فروغ۔نجکاری: جنرل پینوشیٹ کی حکمرانی کے دوران‘ چلی نے ٹیلی مواصلات‘ یوٹیلیٹیز اور ائر لائنز کی کامیاب نجکاری کی‘ جس نے ایک قابل ذکر مثال قائم کی۔ اسی طرح 1990ءکی دہائی میں‘ نیوزی لینڈ کی لیبر حکومت نے توانائی‘ ٹیلی مواصلات اور عوامی کاروباری اداروں کا احاطہ کرتے ہوئے جامع نجکاری پروگرام مرتب کیا۔ مزید برآں‘ ملائشیا نے یوٹیلیٹیز‘ نقل و حمل اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں کی نجکاری میں کامیابی حاصل کی۔ یہ مثالیں قابل تقلید ہیں اور قابل قدر لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کاری: ویت نام کی کامیاب معاشی اصلاحات کے ساتھ مستحکم سیاسی ماحول نے اِسے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش بنایا۔ گزشتہ سال ویت نام میں 36.6 ارب ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی۔ اِسی طرح انڈونیشیا نے جنوب مشرقی ایشیا میں اپنے اسٹریٹجک محل وقوع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ سال 47.34 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کی۔سبسڈی اصلاحات: سال دوہزار کی دہائی کے اوائل میں‘ مراکش نے اپنے توانائی کے شعبے میں سبسڈی اصلاحات کا ’کامیاب (جامع) پروگرام‘ شروع کیا۔ اسی طرح ازبکستان نے توانائی اور یوٹیلیٹیز کو ہدف بناتے ہوئے سبسڈی اصلاحات کیں۔ اِس فہرست میں چلی کی بھی مثال پیش کی جا سکتی ہے جس نے سرکاری اداروں کو دی جانے والی سبسڈی میں غیرمعمولی کمی کی۔اندرون ملک کارٹلز کو ختم کرنا: ویت نام‘ پیرو اور کولمبیا ترقی پذیر ممالک ہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں نجی اداروں کی اجارہ داری (کارٹلز) کو ختم کیا اور مسابقتی مارکیٹوں کو فروغ دینے میں اہم پیش رفت حاصل کی۔آزاد تجارت: جنوبی کوریا‘ تائیوان‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ چلی‘ سنگاپور اور کوسٹا ریکا نامی ممالک آزاد تجارت کو فروغ دینے کے ذریعے حاصل کی جانے والی معاشی خوشحالی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت قریبی ہمسایہ ممالک ہیں جن کی آپس میں تجارت کے بے پناہ امکانات موجود ہیں اور دونوں ممالک بڑھتی ہوئی تجارت اور علاقائی اقتصادی انضمام سے نمایاں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
 پاکستانی کمپنیوں کے لئے بھارت کا مطلب 1.4 ارب سے زائد صارفین کی منڈی ہے۔ بھارت ایک وسیع مارکیٹ ہے جس تک رسائی حاصل کر کے پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ کھلی تجارت سے پاکستانی کاروباری اداروں کو جدید ٹیکنالوجیز اور اُن میں حاصل کی گئی مہارت تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے‘ جس سے دوطرفہ ترقی کو مزید فروغ ملے گا۔ پاکستان کو اِن مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پاکستان کو نجکاری‘ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے‘ سبسڈیز کو مرحلہ وار ختم کرنے‘ کارٹیلز کو ختم کرنے اور آزاد تجارت کو اپنانے پر مبنی (مرکوز) جامع اقتصادی ترقیاتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی اور اِس حکمت عملی پر عمل درآمد کرکے اِسے اپنی حقیقی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔