دہشت گردی : عالمی خطرہ

روس کے دارالحکومت ماسکو میں دہشت گرد حملے میں150افراد ہلاک ہوئے۔ اِس حملے سے جہاں ذمہ دار عسکریت پسند گروپ داعش کی بڑھتی ہوئی صلاحیت ظاہر ہوئی ہے وہیں تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ گروہ اب خطے سے باہر بھی اپنی دہشت گرد کاروائیوں میں تیزی لارہا ہے۔ مذکورہ حملے نے داعش خراسان کو ”عالمی دہشت گرد گروپ“ بنادیا ہے جوکہ اس سے قبل طویل عرصے سے صرف افغانستان اور اس کے اردگرد کے ممالک میں سرگرم تھا۔ روس میں جن مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اُن کا تعلق وسطی ایشیائی خطے سے بتایا جارہا ہے۔ ماضی میں اس خطے نے مشرق وسطیٰ میں داعش کے لئے غیر ملکی جنگجوو¿ں کو تربیت دے کر ان کا ایک مضبوط دستہ تیار کیا ہے۔ عراق اور شام میں جہادی گروپس کے منتشر ہونے کے بعد اب ان میں سے بہت سے گروپس داعش خراسان سے وابستہ ہیں تاہم واضح نہیں کہ اِس گروپ نے روس کو نشانہ کیوں بنایا؟ تجزیہ کاروں کے مطابق انتہا پسند گروہ روس کو مسلمانوں پر ظلم و ستم کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ ستمبر2022ءمیں داعش خراسان نے کابل میں روسی سفارتخانے پر خودکش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ وسطی ایشیائی ممالک میں داعش خراسان کے بڑھتے اثرورسوخ کے حوالے سے روس طویل عرصے سے تشویش میں مبتلا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے جہاں اِن حملوں میں اسلامی انتہا پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا وہیں انہوں نے اس حملے کو یوکرین جنگ سے بھی جوڑا۔ مغربی میڈیا نے اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”شمالی قفقاز اور وسطی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ جو افغانستان یا یوکرین سے یورپ آرہے ہیں‘ مغربی ممالک میں پرتشدد کاروائیوں کے خواہشمند داعش خراسان کو دہشت گرد حملے کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔“ ماسکو حملے نے دیگر ممالک کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں داعش خراسان نامی دہشت گرد گروپ ”خطرے“ کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ کے ایک اعلیٰ عسکری اہلکار نے کانگریس کمیٹی کو ماسکو حملے سے ایک روز قبل بتایا تھا کہ داعش خراسان ’کسی انتباہ کے بغیر چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں حملہ کرنے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتا ہے۔“ مغربی انسداد دہشت گردی کے حکام کے حوالے سے کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ مہینوں میں داعش خراسان کی یورپ میں حملے کی متعدد سازشیں ناکام بنائی گئی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی اسلامک اسٹیٹ آرگنائزیشن داعش کی شاخ خراسان سال2015ء میں بنائی گئی تھی جس کے بعد وہ افغانستان اور ایران میں کئی حملوں میں ملوث رہ چکی ہے۔ داعش خراسان کے قیام کے بعد جلد ہی یہ گروپ افغانستان کے متعدد صوبوں میں متحرک ہوگیا۔ اکثر واقعات میں تو افغان طالبان کے اعلیٰ کمانڈرز کی داعش میں شمولیت سخت عالمی نظریات کی بنا پر نہیں بلکہ گروپ کے بھاری مالی وسائل کی وجہ سے تھی۔ بہت سے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے افغان طالبان اور داعش خراسان ایک دوسرے کے آمنے سامنے بھی آئے تاہم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا¿ اور طالبان کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد داعش خراسان میں انتہاپسندوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اندازے کے مطابق اس میں انتہاپسندوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر دیگر عسکریت پسند گروپوں سے اس کا حصہ بنے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ اس کے اتحاد نے اسے مزید مضبوط کیا۔ امریکی جنگ کے اختتام پر داعش خراسان کے حملوں میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔ اس گروپ نے 2021ء میں امریکی انخلاءکے دوران کابل ائرپورٹ پر بھی حملہ کیا تھا جس میں 13امریکی فوجیوں سمیت بڑی تعداد میں افغان شہری مارے گئے تھے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر زاہد حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

جنوری میں جاری اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی داعش خراسان کو شکست دینے کی کوششوں کی وجہ سے افغانستان میں دہشت گرد حملوں میں کمی آئی لیکن ان دو گروپس کے گٹھ جوڑ سے لاحق خطرے کے اثرات خطے سے باہر بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ بین الاقوامی عسکریت پسند گروپس اور انتہاپسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت نہ صرف افغانستان بلکہ اس کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان کے لئے بھی خطرہ ہے۔ داعش خراسان میں شامل بہت سے انتہا پسند ٹی ٹی پی کے دھڑوں سے اس میں شامل ہوئے جو افغانستان میں پناہ حاصل کئے ہوئے تھے۔ ایک جانب جہاں داعش خراسان افغان طالبان سے لڑ رہا ہے وہیں یہ گروپ مشرقی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دھڑوں کا اتحادی بھی ہے۔ ماسکو حملہ واضح کرتا ہے کہ داعش کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیت خطے اور اس سے باہر ممالک کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہے اُور اِس مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لئے مشترکہ علاقائی و عالمی حکمت عملی بنانے میں زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔