افغانستان : تصورات کے آئینے میں

پاکستان کے شمال مغربی ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں عمومی رائے ’تکبر اور دھوکہ دہی‘ کی ہے۔ سرحدی محافظوں پر آئے روز حملے اور پاکستان کی جانب سے تحمل پر مبنی ردعمل اس ضرورت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ نسلی امتیاز کو بالائے طاق رکھا جائے کیونکہ افغانستان کو راہ راست پر لانے تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ درحقیقت افغانستان سے تعلقات پیچیدہ مسئلہ ہے جو بسااوقات دوست سے زیادہ دشمن لگتا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اور بغیر کسی غلط فہمی‘ مصلحت یا سمجھوتہ معاملہ کیا جائے۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے بعد پاکستان کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا چیلنج افغانستان ہے۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں سال دوہزاراکیس میں اضافہ ہونا شروع ہوا‘ جب وہاں سے امریکی افواج کا انخلا¿ ہوا اور اقتدار افغان طالبان نے سنبھالا۔ سال دوہزاراکیس میں دہشت گردی کے کل 294 واقعات ہوئے جو سال دوہزاربیس کے 187 واقعات کے مقابلے میں 56فیصد زیادہ ہیں۔ سال 2022ءمیں اِن واقعات کی تعداد بڑھ کر 380 اور سال 2023ءمیں تقریباً دوگنی ہو کر 645 ہو گئی۔پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ اِن تمام واقعات کی جڑیں افغانستان کے اندر ہیں۔ سال دوہزاربیس کے اختتام سے اب تک 1907پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ جنوری 2023ءمیں پشاور کی ایک مسجد میں خودکش بمبار کے حملے میں کم از کم ایک سو افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے۔ سال 2020ءکے مقابلے میں سال 2023ءمیں دہشت گردی کے واقعات میں 244فیصد اضافہ ہوا اور جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد میں 267فیصد اضافہ ہوا۔ شہید ہونے والے زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ہے تاہم پنجاب میں بھی گزشتہ سال دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان میں ایک بار پھر خون بہہ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گرد حملے کون کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے اور کیسے کئے جا رہے ہیں۔پاکستان نے سال دوہزارپندرہ سولہ کے دوران ’آپریشن ضرب عضب‘ اور ’ردالفساد‘ کے ذریعے دہشت گردی ختم کرنے کی کوشش کی اور اُس وقت کی کاروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردوں کی ایک تعداد افغانستان فرار ہوئی۔ افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سال دوہزاراکیس میں حکومت پاکستان نے تحریک طالبان کے باقی ماندہ افراد کے لئے عام معافی کی پیشکش کی جو اسٹریٹجک غلطی ثابت ہوئی اور وہی باقیات ایک بار پھر پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔ ہم ’کیوں‘ کے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ایک عرصے سے کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اور علاقائی محرومیوں کی آڑ میں کہیں جواز چھپا ہوا تھا لیکن ٹی ٹی پی واضح ہے اور اس نے بار بار اپنے سیاسی عزائم کا اعلان کیا ہے۔ جس کا بنیادی مطالبہ سابقہ قبائلی علاقوں کے انضمام کو واپس لے کر اِن علاقوں کو ٹی ٹی پی کی حکمرانی والے خود مختار علاقے کی صورت الگ کرنا ہے۔ دہشت گرد حملے کیسے ہوتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے نظریں افغانستان کی طرف اُٹھتی ہیں۔ مسلم لیگ (نواز) کی سابقہ حکومت نے پاک افغان سرحد کے ہزاروں کلومیٹر حصے پر باڑ لگائی تھی لیکن سال دوہزاراکیس میں کئے گئے فیصلوں کی وجہ سے پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کی یہ کوشش ناکام ہو گئی جبکہ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ مستقبل میں پاک افغان سرحد محفوظ اور پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے تو اِس کے لئے سب سے پہلے ’سرحد کا تقدس‘ قائم کرنا ہوگا۔پاکستان کی آزادی کے بعد سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان عالمی سرحد اہم مسئلہ رہا ہے۔ سرحدی تنازعے ہی کی وجہ سے افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے ستمبر 1947ءمیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا حالانکہ اس نے کچھ ہی عرصے بعد اپنا منفی ووٹ واپس لے لیا تھا۔ تاریخ دونوں ہمسایوں کو جوڑتی ہے‘ افغانستان میں اب تک دو بڑے جنگی ادوار (1979-89ءاور 2001-21ئ) گزرے ہیں۔ اِن جنگوں کی وجہ سے افغانستان کی معیشت و معاشرت اب تک متاثر ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر انجنیئر خرم دستگیر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 دوسری جنگ جس نے بیس سال تک افغانستان پر غیرملکی افواج کے قبضے کو برقرار رکھا وہ پاکستان کے تعاون کی وجہ سے سال دوہزاراکیس غیرملکی افواج کے انخلا¿ کے ساتھ ختم ہوئی۔ اِس تاریخی جدوجہد سے پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ سال دوہزارسات سے دوہزارسولہ کے درمیان اور پھر سال دوہزاراکیس میں آج تک ہماری قوم دنیا میں پرتشدد انتہا پسندی کا شکار رہی ہے اور اب بھی پرتشدد انتہاپسندی کی زد پر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی قیادت میں جاری جنگ میں 252 ارب ڈالر کے بھاری نقصان کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی‘ جو واشنگٹن کی جانب سے اسلام آباد کو دی جانے والی مالی امداد سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہے۔ پاکستان نے سال دوہزار ایک سے دوہزاربائیس کے دوران 67 ہزار شہریوں کو کھو دیا۔ اس کے باوجود عالمی برادری پاکستان کی قربانیوں کا خاطرخواہ اعتراف نہیں کر رہی۔ دوسری طرف افغانستان پاکستان کے خلاف عزائم رکھنے والوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کئے ہوئے ہے اور غلط فہمی کی بنیاد پر پاکستان کو افغانستان میں امریکہ کی جنگ ہارنے کی بنیادی وجہ قرار دیتا ہے۔کارٹر ملکاسیان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح صدر کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ افغان نیشنل آرمی کے سربراہوں نے ”غیر ملکیوں کو پاکستان پر حملوں کے لئے استعمال کیا۔“ پاک افغان تعلقات کی بحالی (تعمیر نو) کے لئے دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ علاقائی خودمختاری کو مضبوط کیا جائے۔ افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے۔ پاکستان کو افغانستان کی خودمختاری کا بالکل اسی پیمانے اور معیار سے احترام کرنا چاہئے جس طرح افغانستان پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔ تیسرا کام دولت اسلامیہ خراسان (داعش) کو شکست دینے کے مشترکہ پاک افغان مقصد پر ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے۔ چوتھا کام پاکستان کی افغان پالیسی میں نسلی غیر جانبداری ہے۔ پاکستان کو اِس تاثر سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ افغانستان میں دیگر نسلوں کی قیمت پر صرف پختونوں کی حمایت کرتا ہے۔ ہمیں افغانوں کو پشتون‘ غیر پشتون تفریق سے آزاد دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وقت ہے کہ مشترکہ خوشحالی کے لئے افغانستان سے تجارت‘ مواصلات‘ مالیاتی نظام اور توانائی جیسے رابطوں کی ترقی و بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے۔ (مضمون نگار سابق رکن قومی اسمبلی ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر انجنیئر خرم دستگیر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)