آب و ہوا کی تبدیلی 

آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ عوام و خواص کے حلقوں میں بحث کا موضوع بن چکا ہے‘ جو اِس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ آنے والے دنوں میں بحران زیادہ شدت اختیار کرے گا اور جس سے عالمی سطح پر معیشتوں اور غذائی تحفظ کے نظام کو خطرات لاحق ہیں۔ پیش نظر رہے کہ سال دوہزار تیئس آب و ہوا کی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے چیلنج کا ثبوت ہے جسے عالمی سطح پر گرم ترین سال کے طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے عالمی درجہ حرارت میں صنعتی ترقی سے قبل کی سطح سے ایک اعشاریہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے پر روشنی ڈالی ہے اور اگر موجودہ رجحانات پر وقت کے ساتھ قابو نہ پایا گیا تو دنیا کے درجہ¿ حرارت میں سال دوہزارتیس تک ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جائے گا۔ درجہ حرارت میں اِس اضافے کے اثرات ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ محسوس کئے جا رہے ہیں‘ جہاں زراعت 80 فیصد سے زیادہ آبادی کے لئے ذریعہ¿ معاش ہے اُور زراعت پاکستان جیسے بہت سے ممالک کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس صورتحال میں عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ سال دوہزارتیس تک موسمیاتی تبدیلیوں سے مزید دس کروڑ افراد متاثر ہوتے ہوئے انتہائی غربت کی دلدل میں دھنس جائیں گے۔ خاص طور پر چھوٹے کاشتکاروں کو اس بحران کا نسبتاً زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے کیونکہ چاول اور مکئی جیسی اہم فصلوں کی پیداوار پہلے ہی پچاس فیصد تک کم ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران آب و ہوا سے متعلق آفات میں اُنتیس فیصد اضافہ ہوا‘ جس سے ترقی پذیر ممالک میں معاشرے کے سب سے کمزور طبقوں پر غیر متناسب اثر پڑا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے۔ خاص طور پر سال دوہزاربائیس کے تباہ کن سپر فلڈز نے تین کروڑ تیس لاکھ (33 ملین) سے زیادہ افراد کو متاثر کیا۔ اس طرح کی آفات الگ تھلگ واقعات نہیں بلکہ غیر متوقع آب و ہوا اور موسموں میں تبدیلی کا اشارہ ہیں‘ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے برفانی تودے (گلیشیئرز) اپنی جگہ چھوڑ رہے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاشی اثرات حیران کن ہیں اور اِن سے جنم لینے والے چیلنجوں کی وجہ سے سال دوہزارپچاس تک پاکستان کی جی ڈی پی میں اٹھارہ سے بیس فیصد کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ زرعی شعبہ‘ جو قومی معیشت کا ’اہم ستون‘ ہے اور جس کو فصلوں کی پیداوار میں کمی‘ مویشیوں کی صحت سے سمجھوتہ اور غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈالنے جیسے خطرات کا سامنا ہے تاہم‘ سماجی مضمرات معاشی پیمانوں سے زیادہ ہیں‘ جو لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی‘ ذریعہ معاش کے نقصان اور آب و ہوا کی آفات کے بعد صحت کے بحران کے ذریعے متاثر کر رہے ہیں۔ قدرتی آفات کے نشانے پر سب سے زیادہ کمزور آبادی‘ خاص طور پر بچوں کو شدید خطرات کا سامنا ہے جنہیں نشوونما میں کمی اور بیماریوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف آب و ہوا کی تبدیلی سے لڑکیوں اور خواتین کی کمزوریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جیسا کہ سال دوہزاربائیس کے سپر فلڈ کے بعد رپورٹ کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے عالمی کانفرنس برائے ماحولیات ’سی او پی 27‘ جیسے مواقعوں پر مطالبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی مدد کے لئے خصوصی فنڈ قائم کیا جائے تاہم بحران کی شدت اِس سے کئی زیادہ مربوط اور جامع حکمت عملی کا تقاضا کر رہی ہے‘ جس کے لئے قومی کوششوں کو عالمی تعاون کے ساتھ مربوط کیا جا سکے اگرچہ نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی فریم ورک 2013ئ‘ نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021ءاور پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017ءجیسی بنیادی پالیسیاں امید کی کرن ہیں لیکن ادارہ جاتی اور تزویراتی خلا کی وجہ سے ان سے پوری طرح کام نہیں لیا جا سکا ہے۔ ضرورت واضح ہے کہ وقتی (ایڈہاک) رد عمل اور منقسم سوچ پر مبنی طرز حکمرانی سے آگے بڑھ کر آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے جامع‘ بین العلاقائی نقطہ نظر اپنایا جائے۔ پاکستان کو بھی اپنی ماحولیاتی فنانسنگ کی حکمت ِعملی پر نظر ثانی کرنے اور جدید فنانسنگ کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا بین الاقوامی وعدوں پر انحصار (جیسا کہ سال دوہزاربائیس میں سپر فلڈ کے بعد جنیوا پلیجز)‘ کثیر الجہتی موسمیاتی فنڈز پر عمل درآمد اور ماحول کے لئے مقامی طور پر مالی وسائل مختص کرنے سے ’کثیر الجہتی نقطہ نظر‘ کی عکاسی ہو رہی ہے تاہم امداد کے بیرونی وعدوں پر زیادہ یقین نہیں کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر عادل نجم کی جانب سے سیلاب متاثرین کی بحالی کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لئے فنانسنگ کے جدید طریقوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل (پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں فیصلہ کرنے والا اعلیٰ ترین ادارہ) کے زیر اہتمام اس طرح کا فریم ورک پاکستان کو مستقبل قریب و بعید میں موسمیاتی اثرات سے محفوظ کرنے کے پائیدار راستے کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف پاکستان کی ماحولیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے ازحد ضروری ہے بلکہ بڑھتی ہوئی غیر متوقع آب و ہوا سے آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھنے اور مستقبل کی خوشحالی و فلاح و بہبود یقینی بنانے کے لئے بھی ناگزیر ہے۔ (مضمون نگار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیں۔بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد سلہیری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)