بھٹو کی میراث

چار اپریل 1979ءکو پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا دن تھا‘ یہ فیصلہ چار ججوں کی حمایت اور تین ججوں کی مخالفت میں دیا گیا‘ جسے حال ہی میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے تاریخ کا سیاہ اور سفاک ترین باب قرار دیا ہے‘ ایک آمر نے ذاتی حکمرانی کی جستجو میں پاکستان کے عوام کے دلوں پر راج کرنے والے مقبول رہنما کو راستے سے ہٹایا تھا‘ بھٹو کو پھانسی دینے سے پہلے جیل کی تاریک کوٹھڑیوں میں مہینوں تک بدسلوکی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اِس بہادر رہنما نے اپنے اصولوں کو چھوڑنے سے انکار کیا‘بہت کم ایسے رہنما ہوتے ہیں جو مثالی جرات سے ثابت کریں کہ وہ قوم اور عوام کی خاطر اپنی جان دینے سے کبھی دریغ نہیں کریں گے‘ منتخب وزیر اعظم کے عدالتی قتل کی دنیا بھر سے شدید مذمت کی گئی‘ بھٹو نے اپنی مختصر زندگی میں عالمی سطح پر ناقابل فراموش اثرات چھوڑے۔ آج بھی پاکستان کی ترقی میں ان کی خدمات قابل قدر ہیں اور بے مثال ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ءمیں سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک منقسم قوم کی باگ ڈور سنبھالی‘مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے بڑے پیمانے پر مفاد پرستوں کی حوصلہ افزائی کی جو پاکستان مخالف تھے اور وہ ملک کی مزید تقسیم اور تباہی کا انتظار کر رہے تھے‘بھٹو نے یہ سب کچھ بدل دیا‘انہوں نے جلد ہی شکست خوردہ قوم کو پھر سے اپنے پاو¿ں پر نہ صرف کھڑا کیا بلکہ چند ہی برس میں دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن بھی کر دیا‘ انہوں نے عوام کو تحفظ کا احساس دلایا اور ایک متحد اور آزاد ملک کی حیثیت سے پاکستان کی سالمیت و افادیت کے بارے میں پائے جانے والے عمومی و خصوصی شکوک و شبہات دور کئے۔بنگلہ دیش کے قیام کے محض دو سال بعد آٹھ دسمبر 1973ءکو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ پاکستان نے 1971ءکی جنگ سے ہوئے نقصانات کو پورا کر لیا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو قابل سیاست دان ہیں جنہوں نے ملک کو اس کا آئین اور جمہوری ادارے دیئے۔ اخبار نے مزید لکھا کہ بھارت کیساتھ جنگ کے دو سال بعد پاکستان نے جنگ جیت لی تھی اور اپنے ہزاروں قیدیوں کو واپس لانے میں بھی کامیاب رہا۔ نیو یارک ٹائمز نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ پاکستان برصغیر میں سب سے زیادہ مستحکم ملک دکھائی دیتا ہے اور ان کامیابیوں کا سہرا وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے جنہوں نے 93 ہزار سے زیادہ جنگی قیدیوں کی واپسی ممکن بنائی‘ جنگی جرائم کے مقدمات ختم کئے اور بھارت سے پانچ ہزار مربع میل کا کھویا ہوا علاقہ بھی آزاد کرایا‘ بھٹو کے دور میں پاکستان جنوبی ایشیا کے مستحکم ممالک میں سے ایک تھا۔ انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جو بھٹو کی عالمی محاذ پر دیگر تاریخی کامیابیوں میں نمایاں ہے‘1974ءکی مذکورہ کانفرنس نے اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد اور مشترکہ تقدیر کا ایک نیا احساس پیدا کیا اور امت مسلمہ کو دوستی اور تعاون کے ایک نئے دور میں لے گئی۔چار اپریل 1979ءہمیشہ ہماری یادوں میں نقش رہے گا‘ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مثالی قربانی اور شہادت سے ہمیں یہ سبق دیا کہ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ رواں سال یادگار ہے کیونکہ حال ہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے میں تسلیم کیا گیا تھا کہ مسٹر بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں منصفانہ ٹرائل نہیں دیا گیا‘ جس کی وجہ سے انہیں پھانسی ہوئی۔ اس اعتراف اور وضاحت کو ملنے میں تقریباً 44 سال لگے لیکن عدالتوں نے بالآخر اس بات کی توثیق کی ہے اور جیسا کہ اکثر قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ بھٹو کا قتل عدالتی قتل ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجودہ صدر اور مسٹر بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کی جانب سے دائر ریفرنس کے جواب میں کیا گیاجو لوگ بھٹو کا نام مٹانا چاہتے تھے وہ اِس عدالتی فیصلے سے یقیناً مایوس ہوئے ہوں گے ‘کیونکہ بھٹو کا نام زندہ ہے اور ان کے کام کو ان کے پوتے بلاول آگے بڑھا رہے ہیں‘ بلاول پہلے ہی پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور آصفہ حال ہی میں قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں اور بھٹو کی وراثت زندہ ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر بشیر ریاض۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)