توجہ طلب امور

چیف جسٹس صاحب نے اگلے روز سوشل میڈیا پر جھوٹے تبصرے کرنے والوں پر بالکل بجا طور خفگی کا اظہار کیا ہے اور درست کہا ہے کہ پیشہ ورانہ صحافت کا تقاضہ تصدیق کے بعد خبر دینا ہے ایک عرصہ سے ملک کے سماجی حلقوں میں یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض پروگرام نہ صرف یہ کہ اخلاقیات سے عاری ہوتے ہیں ‘ان میں بغیر تصدیق کئی ایسی خبریں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ جو حقائق پر مبنی نہیں ہوتیں اس لئے بہ امر مجبوری وہ لوگ بھی جن کے سنسرشپ لگانے پر تحفظات تھے وہ بھی اب یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کسی نہ کسی شکل میں سنسر شپ ضروری ہے‘ ورنہ ہمارا معاشرہ اس کی مادر پدر آ زاد نشریاتی پالیسی سے ذہنی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے‘ خدا لگتی یہ ہے کہ اس پر ہر ہمہ شمہ جی میں جو آئے آزادی رائے کی آڑ کو جواز بنا کر انٹ شنٹ بول دیتا ہے اور ایسی ایسی واہیات اور اخلاق سوز وڈیوز کی بھرمار ہے جو دیکھنے لائق نہیں ہوتیں ‘ایک دور تھا کہ جب احتیاط کا یہ عالم تھا کہ سینما گھر والے جب یہ محسوس کرتے کہ جو فلم وہ چلا رہے ہیں اس میں بعض ایسے سین ہیں کہ جو فحاشی کے زمرے میں آتے ہیں تو وہ پبلسٹی بورڈ پر لکھ دیتے تھے‘for adults only یعنی یہ فلم صرف بالغ افراد کے واسطے ہے اس کے علاہ بغیر سینسر بورڈ کے سرٹیفیکیٹ کے کوئی فلم بھی سینما گھروں میں نمائش کے واسطے پیش نہیں کی جا سکتی تھی ۔ محمود خان اچکزئی کی زیر قیادت اپوزیشن پارٹیوں کے گرینڈ الائنس کا قیام اس ملک کی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے‘ ویسے تو پارلیمانی جمہوریت کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ حزب اقتدار کے کاموں پر کڑی نظر رکھنے کے واسطے ملک میں حزب اختلاف کی شکل میں پارلیمان میں اپوزیشن کے اراکین موجود ہونے اس لئے ضروری ہوتے ہیں کہ وہ حکومت کی کار کردگی کا جائزہ لے کر قوم کو صحیح صورت حال سے باخبر کرتے رہیں تاکہ ان کو تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آ تا رہے‘ اپوزیشن کا یہ فرض گردانا گیا ہے کہ ارباب اقتدار عوامی مفاد کے بر عکس اگر کام کر رہے ہیں یا ملک کے آ ئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو اس صورت میں پھر وہ اس کی گوشمالی کرے ۔وطن عزیز میں ماضی قریب میں عوامی فلاح و بہبود کے اگر کوئی درست پروگرام لانچ کئے گئے ہیں تو وہ دو ہی ہیں‘ ایک تھا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دوسرا صحت انصاف کارڈ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر حکومت ان دونوں پروگراموں کا دائرہ وسیع کرے اور اگر ان میں کسی جگہ کسی مزید اصلاح کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تو وہ بلا تاخیر کی جائے ۔پانچ وفاقی وزراءکو جو اضافی قلمدان تفویض کئے گئے ہیں‘ ان کے بارے میں عرض یہ ہے کہ کیا یہ اچھا نہ تھا کہ ابتداءسے ہی مرکز اور صوبوں میں ایسی کابینائیں تشکیل دی جاتیں کہ جن میں وزراءکو دو دو یا تین تین محکموںکا انچارج بنایا جاتا۔تادم تحریر اسلام آباد کی پولیس ان ملزموں تک پہنچنے میں ناکام نظر آ رہی ہے جو اس ملک کے ججوں کو ہراساں کرنے کے واسطے ان کو خطوط میں زہریلا پاﺅڈر اور دھمکی آمیز تحریریں ارسال کر رہے ہیں جب تک اس ملک میں ریپ اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے درندہ صفت افراد کو شہروں کے چوکوں میں بر سر عام عبرتناک سرائیں نہیں ملتیں‘ وطن عزیز سے یہ علتیں ختم نہ ہوں گی اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔