قابل تقلید انٹرا پارٹی الیکشن سسٹم

حافظ نعیم الرحمن کو جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اپنا چھٹا امیر منتخب کر لیا ہے ‘انٹرا پارٹی الیکشن کا جو سسٹم اس پارٹی نے وضع کیا ہوا ہے وہ اتنا جامع ہے‘ اتنا فول پروف اور منصفانہ اور شفاف ہے کہ اس ملک کے اکثر سیاسی مبصرین کی دیرینہ خواہش ہے کہ ملک کی ہر سیاسی پارٹی کو اس کی روشنی میں اپنی اپنی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے نظام کو ڈھالنا چاہیے تاکہ موروثی سیاست کا قلع قمح ہو سکے اور پارٹی کے عام ورکر کو اپنے حسن کارکردگی کی بنیاد پر پارٹی کے اندر کلیدی منصب تک پہنچنے تک رسائی ہو سکے جماعت اسلامی نے پارٹی کے اندر جس احسن طریقے سے موروثی سیاست کا خاتمہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے ‘کاش کہ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی اسی قسم کا طریقہ کار اپنے اپنے انٹرا پارٹی الیکشن میں اپناتیں ‘حافظ نعیم الرحمن صاحب ایک لمبے عرصے سے جماعت اسلامی کے اندر ایک متحرک کردار ادا کر رہے تھے لہٰذا سابقہ امیر جماعت مولانا سراج الحق کے عہدے کی معیاد ختم ہونے پر پارٹی کی مجلس شوریٰ نے جماعت اسلامی کے نئے امیر کے انتخاب کے واسطے تین افراد پر مشتمل جو پینل بنایا ان میں سے ایک کا بطور امیر چننے کے لئے 40000 سے زائد جماعت کے اراکین نے خفیہ بیلٹ کے ذریعہ حافظ نعیم الرحمن کا انتخاب کیا‘ لیاقت بلوچ صاحب اس پارٹی کے بہت پرانے رکن ہیں‘ ایک سے زیادہ مرتبہ انہوں نے امیر جماعت اسلامی کی قیادت حاصل کرنے کےلئے الیکشن لڑا پر وہ اس الیکشن میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جب تک انتخابی اصلاحات کے واسطے تمام سیاسی جماعتیں مل کر اجتماعی قدم نہیں اٹھائیں گی ہر الیکشن کے بعد وہی پرانے چہرے مسند اقتدار پر براجمان نظر آئیں گے کہ جو ماضی میں بھی اس ملک کے ارباب بست و کشاد تھے ‘ ملک کے بعض سیاسی حلقوں میں عید کے بعد حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلانے کی بھی بات کی جا رہی ہے جس سے ملک کے محب وطن طبقوں کو یہ خدشہ ہے کہ خدا نہ خواستہ یہ ملک پھر کہیں کسی اور سیاسی انتشار کا شکار نہ ہو جائے اور ایوب خان کی یہ بات سچ نہ ثابت ہو جائے کہ پارلیمانی جمہوریت اس ملک کے عوام کے مزاج کے ساتھ میل نہیں کھاتی ‘ یعنی اس کے ساتھ ہم آ ہنگ نہیں ہے ۔اگر ماضی کی طرح اب بھی تمام سیاسی پارٹیوں نے افہام و تفہیم کے ساتھ ٹیبل ٹاک کے ذریعے کچھ دو کچھ لو اور برداشت کا مظاہرہ نہ کیا تو خدشہ ہے کہ کہیں اس ملک میں موجود جمہوریت کی بساط کہیں پھر نہ لپیٹ دی جائے ۔ملک میں انتہا پسندی کی اس سے بڑی مثال بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دہشت گردی واقعات کی وجہ سے 300 سے زائد سکھ پشاور سے ٹیکسلا منتقل ہو گئے ہیں‘ اس قسم کے واقعات کو ہمارا دشمن بھارت انٹرنیشنل فورمز میں اچھال کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرے گا ‘کیا یہ ہمارے مذہبی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ملک میں موجود جنونیت کو ختم کرنے کے واسطے کردار ادا کریں۔عالمی منڈی میں جب کبھی بھی خام تیل مہنگا ہوتا ہے تو اس کو جواز بنا کر اس ملک کی ہر حکومت تیل کی قیمت میں اضافہ کر دیتی ہے‘ جس سے پھر عوام کے روزمرہ استعمال کی ہر چیز لامحالہ مہنگی ہو جاتی ہے پر جب عالمی منڈی میں اس کی قیمت گرتی ہے تو پھر اسی تناسب سے تیل کی قیمت کو گھٹایا نہیں جاتا لہٰذا عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملتا‘آج کل بھی یہی کچھ ہو رہا ہے