ناگزیر تعلیمی اصلاحات

بلوچستان یونیورسٹی کے باہر احتجاج جاری ہے کیونکہ کیمپس کے اندر احتجاج پر پابندی ہے لہٰذا اساتذہ اور عملے کے ارکان سمیت مظاہرین سریاب روڈ پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس طرح کے احتجاج سرکاری اداروں کے ملازمین کے لئے معمول کی سرگرمی بن گئی ہے تاہم اس مرتبہ یونیورسٹی کے ملازمین اپنی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں جسے یونیورسٹی انتظامیہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ گزشتہ سال تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے یونیورسٹی کئی ماہ تک بند بھی رہی تھی۔ بلوچستان حکومت سرکاری جامعات کے لئے مالی امداد کے طور پر سالانہ گرانٹ ’اِن ایڈ‘ مختص کرتی ہے۔ یہ رقم ملک کی گیارہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں (سرکاری جامعات) کے درمیان طے شدہ فارمولے کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے۔ اس سال کا بجٹ ڈھائی ارب روپے ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ بلوچستان کی سب سے پرانی یونیورسٹی مالی طور پر اتنی کمزور کیسے ہو گئی ہے کہ اس کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی بروقت ادائیگی کے لئے فنڈز نہیں رہے؟ اِس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ سے پوچھا جائے تو وہ الزام ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پر عائد کرتی ہے جس نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت یونیورسٹی کو دیئے گئے بجٹ میں کی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ صوبائی حکومت سے معمولی فنڈز حاصل کرنے کی بھی شکایت کرتی ہے تاہم یہ خرابی¿ حالات کی مکمل عکاسی نہیں ہے۔ بلوچستان حکومت نے گزشتہ سال صوبے کی سرکاری جامعات کی مالی بدحالی کی وجوہات جاننے کے لئے اعلیٰ سطحی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی تھی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں (ایچ ای آئیز) کے مالی استحکام کو بہتر بنانے کے لئے سفارشات بھی پیش کی تھیں۔ چانسلر یعنی گورنر بلوچستان نے یونیورسٹیوں کی مالی بدحالی پر غور کرنے اور اس کے حل کی سفارش کرنے کے لئے تین روزہ کانفرنس کی صدارت کی۔ یونیورسٹیوں کے تمام وائس چانسلرز تین دن تک کوئٹہ میں سرجوڑ کر غوروخوض کرتے رہے۔ یونیورسٹیوں کی اصلاحاتی کمیٹی اور وائس چانسلرز کانفرنس نے جامعات کی مالی مشکلات کو درپیش انتظامی اور مالی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے متعدد تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے اپنی رپورٹوں میں کئی ایک مسائل اجاگر کئے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ یونیورسٹیوں کی جانب سے تقرریوں اور ترقیوں میں ایچ ای سی کی ہدایات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایچ ای سی کی انسٹی ٹیوٹ پرفارمنس ایویلیویشن رپورٹ (2021) کے مطابق‘ بعض تقرریوں اور ترقیوں میں‘ یونیورسٹی آف بلوچستان نے تجربے کے معیار اور ملازمتی ترقیوں کے لئے درکار اشاعتوں کی تعداد دونوں میں نرمی کی۔ یہ نہ صرف ایچ ای سی کی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی ہے بلکہ یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم کی گراوٹ کی بڑی وجہ بھی ہے اور اِس طرح کی ملازمتی ترقیاں درحقیقت یونیورسٹی کے مالی معاملات پر بوجھ ثابت ہوتی ہیں۔ اسی طرح سکالرشپ کی سہولیات کے غلط استعمال میں بدانتظامی کی گئی۔ مشرف دور میں ’ایچ ای سی‘ نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے سکالرشپ پروگرام متعارف کرایا تھا۔ سال دوہزارآٹھ سے دوہزاراُنیس تک یونیورسٹی آف بلوچستان کے تقریباً 68 فیکلٹی ممبران نے ان وظائف سے فائدہ اٹھایا اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک گئے تاہم اِن میں سے 12 فیکلٹی ممبران واپس نہیں آئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے بظاہر انہیں واپس لانے یا کم از کم ان کی پڑھائی پر خرچ کی گئی تنخواہ کی رقم یا سکالرشپ کی رقم کی وصولی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ پاکستان میں کسی بھی دوسرے سرکاری ادارے کی طرح‘ بلوچستان میں سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کو اضافی عملے کے مسئلے کا سامنا ہے۔ اصلاحاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صوبے کی واحد خواتین پر مشتمل یونیورسٹی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی نے 290 ملازمین کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جبکہ یونیورسٹی نے 85 سے زائد کنٹریکٹ ملازمین کی خدمات حاصل کیں۔ یہ تعداد اُن ملازمین کے علاو¿ہ ہیں جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت پر رکھا گیا‘ جو نہ صرف ماہانہ تنخواہوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ پنشن کے حقدار بھی ہوتے ہیں۔ کمیٹی کی جانب سے اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بلوچستان یونیورسٹیز ایکٹ 2022ءکے تحت کچھ قانونی عہدوں کو مسابقتی عمل کے ذریعے پُر کیا جانا چاہئے‘ جو جامعات کے فیکلٹی ممبران کو دیئے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی سمیت کئی یونیورسٹیوں میں پرو وائس چانسلر‘ رجسٹرارز اور خزانچی کے عہدوں کو یا تو اضافی چارج یا ایڈہاک بنیاد پر پر کیا جاتا ہے اور وہ بھی زیادہ تر فیکلٹی ممبران کی طرف سے جو پیشہ ورانہ طور پر ماہر تعلیم ہیں اور اس طرح کے انتظامی عہدوں کے لئے موزوں نہیں ہیں۔پنشن الاو¿نس بھی یونیورسٹیوں کے بجٹ کا بڑا حصہ کھا جاتا ہے۔ یو او بی انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر اس کا غلط انتظام کیا۔ مالی سال 2022-23ءکے لئے ہوئے سرکاری یونیورسٹیوں کے آڈٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ’یو او بی‘ کے پاس کوئی علیحدہ پنشن فنڈ نہیں‘ جس کی وجہ سے حکومت سے حاصل ہونے والی ریکرنگ گرانٹس سے کموٹیشن اور ماہانہ پنشن کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ مزید برآں چودہ جولائی دوہزاراکیس کو یونیورسٹی انتظامیہ نے سینیٹ سنڈیکیٹ کی منظوری کے بغیر پنشن کنٹری بیوشن پینتالیس فیصد سے بڑھا کر پینسٹھ فیصد کر دی جس سے ماہانہ پانچ کروڑ روپے درکار تھے۔ مالی استحکام کے لئے‘ یونیورسٹیوں کے سالانہ بجٹ کو مناسب طریقے سے تیار کیا جانا چاہئے اور بجٹ کی تیاری کے عمل میں متعلقہ فورمز پر تفصیلی تبادلہ¿ خیال بھی ہونا چاہئے۔ (مضمون نگار بلوچستان کے سابق سیکرٹری اعلیٰ تعلیم ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حافظ عبد الماجد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے معاملے میں اِن فورمز میں فنانس اور پلاننگ کمیٹیاں‘ سنڈیکیٹ اور سینیٹ شامل ہیں۔ نئے عہدوں کی تخلیق‘ ترقیاتی اقدامات اور غیر ترقیاتی بجٹ سمیت تمام بجٹ مطالبات پر غور و خوض کے بعد منظوری دینے کا نظام موجود ہے جس پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ تلخ ہے کہ صوبے کی بہت سی پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں اپنا سالانہ بجٹ منظوری کے لئے سنڈیکیٹ اور سینیٹ کے سامنے پیش نہیں کرتیں۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے انتظامی اور مالیاتی نظام میں بدانتظامی اور کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کے علاو¿ہ اصلاحاتی کمیٹی اور وائس چانسلر کانفرنس نے اِن مسائل کو حل کرنے اور یونیورسٹیوں کو مالی استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے کچھ حل بھی تجویز کئے ہیں تاکہ یونیورسٹیوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کئے جائیں۔ اِن سفارشات پر تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول وفاقی حکومت‘ ایچ ای سی‘ صوبائی حکومت اور سب سے بڑھ کر‘ یونیورسٹی انتظامیہ کو عمل درآمد کرنے کے لئے پختہ عزم کا اظہار کرنا ہوگا۔