معاشی کمال : سری لنکا کی مثال

سری لنکا کی معیشت بحالی کی جانب گامزن ہے‘ ملک کا مثبت منظر 2 سال دیکھی گئی ’معاشی افراتفری‘ سے یکسر مختلف ہے‘ سری لنکا کو درپیش اقتصادی چیلنجز انتہائی سنجیدہ نوعیت کے تھے لیکن انہیں حل کیا جاسکتا تھا مگر سری لنکن حکومت نے یکے بعد دیگرے سیاسی مفاد کے فیصلے کرکے معاشی بحران کو مزید بگاڑ دیا اور یوں ملک دیوالیہ ہوگیا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح معاشی بحران تیزی سے سیاسی بحران کی صورت اختیار کر گیا۔ ملک گیر احتجاج ہوئے۔ صدر کو استعفیٰ دینا پڑا اور پھر وہ تصویر سامنے آئی جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی کہ سری لنکن قوم نے کولمبو میں ایوانِ صدر پر قبضہ کرلیا۔ لوگوں کو شاید یاد نہ ہو لیکن سر ی لنکا کی اس بدقسمت صورتحال کو پاکستان میں بہت قریب سے دیکھا گیا ‘اب یہ تمام افراتفری تاریخ کا حصہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ سری لنکا کے ساحل سے ٹکراتی لہریں اب سکون اور اطمینان کا پیغام دے رہی ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق مہنگائی کی شرح ستر فیصد سے 5.9فیصد تک آچکی ہے جبکہ ڈیڑھ سالہ بحران کے بعد اب سری لنکن معیشت پھل پھول رہی ہے۔ معاشی حالت میں یہ تبدیلی شاید کچھ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرسکے کہ استحکام کا حصول ہمیشہ سے ممکن تھا۔ جس طرح پانی کی بوتل کو خوب ہلانے کے بعد ایک جگہ رکھ دیا جائے تو پانی ٹھہر جاتا ہے بالکل اسی طرح افراتفری کی لپیٹ میں آیا نظام بھی بالآخر حل ہوسکتا ہے۔ سری لنکا کی شاندار و بے مثال معاشی بحالی صدر رانیل وکرماسنگھے کی زبردست قیادت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ ملک کے تجربہ کار سیاستدان رانیل وکرماسنگھے نے ایک ایسے وقت میں ملک کی کمان سنبھالی جب کوئی دوسرا سیاسی رہنما آئی ایم ایف کی معاشی اصلاحات کے بعد یہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔ زائد ٹیکسوں کا اطلاق‘ مارکیٹ کی طرف سے طے شدہ شرحِ مبادلہ اور ریاستی اداروں کی نجکاری سمیت دیگر اصلاحات کے بعد سیاسی سرمائے کے لحاظ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا لیکن رانیل وکرماسنگھے کی قائدانہ صلاحیتوں میں ایسی کیا بات تھی کہ جس نے انہیں مستحکم کرنے کے ساتھ سری لنکا کو اس کی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے نکالنے میں بھی مدد دی؟ جب یہ سوال سری لنکا کی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ماہرین کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے صدر رانیل وکرماسنگھے کی قائدانہ اور سیاسی تجربے کو معاشی استحکام کی کلیدی وجوہات میں سے ایک بتایا کیونکہ اس سے متعدد بین الاقوامی قرض دہندگان کے لئے اعتماد کی فضا پیدا ہوئی۔ پارلیمنٹ میں کم نمائندگی ہونے کے باوجود رانیل وکرماسنگھے عالمی سطح پر کافی مو¿ثر تھے۔ ان کے اسی تاثر کی وجہ سے ایک بار پھر آئی ایم ایف سری لنکا کی مدد کے لئے میدان میں اترا۔ آئی ایم ایف کو رانیل وکرماسنگھے کی صورت میں ایک قابلِ اعتماد پارٹنر ملا۔ ایک ایسا پارٹنر جو معاشی پالیسی کا تجربہ رکھنے والا شخص ہے اور وہ ان معاشی اصلاحات سے گریز نہیں کرے گا جو سری لنکا کو پائیدار اقتصادی بحالی اور ترقی کے لئے درکار ہیں۔ ان کی قیادت‘ تجربہ‘ حکمت عملی اور ساکھ نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اقتصادی ایڈجسٹمنٹ کے سب سے مشکل مرحلے پر عمل درآمد کریں یعنی مارکیٹ کی جانب سے طے شدہ شرحِ مبادلہ جس کی وجہ سے سری لنکن روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف فیصد کم ہوئی۔ سخت اقتصادی فیصلوں میں جتنا زیادہ وقت لیا جاتا‘ صورتحال اتنی ہی زیادہ خراب ہوتی۔ اس کے علاو¿ہ سری لنکا کی معاشی بحالی کے پیچھے ادارہ جاتی ڈھانچہ بھی ایک وجہ ہے۔ 1978ءکے بعد سے سری لنکا کے صدور انتہائی طاقتور تھے جو ریاست اور حکومت دونوں کے سربراہ تھے۔ ایک جانب جہاں سری لنکا کی ’ایگزیکیو پریذیڈ نسی‘ کو حد سے زیادہ خودمختار ہونے پر متعدد مواقع پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں انہیں اختیارات نے رانیل وکرماسنگھے کو اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے پر کام کرنے کے قابل بنایا جو شاید ایک تقسیم شدہ پارلیمنٹ کی وجہ سے ممکن نہ ہوپاتا۔ بڑے پیمانے پر کی جانے والی ان اقتصادی ایڈجسٹمنٹس کی قیمت سری لنکا کو سماجی طور پر ادا کرنا پڑی۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی بینک نے انکشاف کیا کہ سال دوہزارچوبیس میں سری لنکا میں شرحِ غربت چھبیس فیصد ہوگئی جوکہ سال دوہزاراُنیس میں گیارہ فیصد تھی۔ اس کے علاو¿ہ نہ صرف ستر فیصد افراطِ زر نے معیارِ زندگی پر منفی اثرات کئے اور بہت سے چھوٹے کاروبار مستقل طور پر بند ہوئے وہیں ملک میں برین ڈرین (روزگار یا دیگر وجوہات کی غرض سے ملک چھوڑنے والوں) کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ اِس کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ سری لنکا کی کہانی کا اختتام ہوا ہو۔ سری لنکا کو اب بھی بہت سے ایسے خطرات کا سامنا ہے جو معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کو روک سکتے ہیں۔ سب سے پہلا خطرہ جغرافیائی ہے۔ بھارت نے کچاتھیو کے چھوٹے سے جزیرے پر دعویٰ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی ملکیت خود بھارت نے 1974ءمیں سری لنکا کو منتقل کی تھی۔ حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیرِ خارجہ نے اچانک سے اس معاملے پر شور مچانا شروع کردیا ہے جس کا مطلب ایسے حالات پیدا کرنا ہے جن سے جزیرہ بھارت کے حوالے کردیا جائے۔ یہ ممکن ہے کہ بی جے پی نے ایسا حالیہ انتخابات کے پیشِ نظر بالخصوص تامل ناڈو میں زیادہ نشستیں جیتنے کے لئے کیا ہو جہاں وہ 2019ءمیں کوئی نشست حاصل نہیں کرپائی تھی لیکن بھارتی خارجہ پالیسی اور جزیرے کے حوالے سے گزشتہ تجربے کی ناکامی کے باعث معاملات ممکنہ طور پر جنوب کا رخ کرسکتے ہیں۔ دوسرا خطرہ آئندہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی وجہ سے سیاسی بے یقینی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر اقدس افضل۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

سری لنکا اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے کیسے نکلا؟ اس کہانی میں فلم ساز ہچکوکیئن کی فلموں کی طرح تھرل ہے۔ صدر رانیل وکرما سنگھے نے کمالات دکھائے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا ان کی قسمت ایک ٹریجک ہیرو جیسی ہوگی یا نہیں۔ شاید پاکستان کو بھی معاشی اصلاحات اور معاشی بحالی کی طرف مستقل سفر پر گامزن ہونے کے لئے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر اقدس افضل۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔