آگ کا دریا

یادش بخیر‘ مئی 2023 ءکی بات ہے کہ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں 38 فیصد اضافہ ہوا جو مہنگائی کے ہاتھوں پریشان خاندانوں کے لئے صدمہ تھا اور اِس سے متوسط طبقے کے مالی استحکام کو دھچکا لگا‘ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ صرف ایک سال میں گندم کے آٹے کی قیمت میں 99فیصد کا غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔ یاد رہے کہ صرف ایک سال میں انڈوں اور چاول کی قیمتوں میں بالترتیب 90 فیصد اور 85فیصد اضافہ ہوا تھا۔ وہ سیاہ دن تھے‘ ایک ایسا وقت جب روزمرہ ضروریات کی قیمتیں ظلم سے تعبیر کی جاتی تھیں اور درحقیقت وہ ایک آگ کے دریا میں گزرنے جیسا تھا۔ مئی 2023ءمیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 64فیصد اضافہ ہوا۔ وہ انتہائی مشکل وقت تھا۔ گیس کی قیمتوں میں 63فیصد اضافہ کیا گیا جس سے مصائب بڑھے۔ بجلی کی قیمتوں میں 59فیصد اضافہ ہوا اور ایسی مشکلات جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں اور یہ سب کسی آگ کے دریا سے گزرنے جیسا تھا۔ اس دور میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان جو کہ قومی معاشی خوشحالی کا محافظ ادارہ ہے اور اِسے ملک کے چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے مفادات کا محافظ ہونا چاہئے لیکن اِس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف 3.6 ارب ڈالر رہ گئے اور اِس سے پیدا ہونے والی معاشی مایوسی کتنی گہری تھی‘ اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے۔اپریل دوہزارچوبیس میں کچھ اچھی خبریں سننے میں آئی ہیں۔ اٹھارہ اپریل دوہزارچوبیس کو ختم ہونے والے تازہ ترین رپورٹنگ ہفتے میں ہفتہ وار حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) میں غیر متوقع طور پر خوشگوار گراوٹ دیکھی گئی‘ جس میں 0.79 فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی۔ اس ہفتے گندم کے آٹے میں 8.97فیصد‘ کیلے میں 8.67فیصد‘ کوکنگ آئل اور دال مسور میں بالترتیب 0.45 فیصد اور 0.43 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ اُنیس اپریل دوہزارچوبیس کے روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے قوم کو مطلع کیا کہ اُس کے پاس آٹھ ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔اِس موقع پر دس سوالات زیرغور ہیں۔ کیا ہم میںنقصان دہ دور ختم ہو چکا ہے؟ کیا معاشی خطرہ ٹل چکا ہے؟ کیا ہماری معیشت سنبھل رہی ہے؟ کیا معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے مستقل مثبت نتائج برآمد ہوں گے؟کیا جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ٹھیک ہے؟ کیا معیشت اوپر کی طرف گامزن ہے؟ کیا غلط فیصلوں نے معیشت کو کونے میں دھکیل دیا ہے؟ کیا ہم مشکل لمحات سے گزر چکے ہیں؟ کیا ہم معاشی بہتری کی طرف جا رہے ہیں؟ کیا ہم نے مشکل فیصلے کئے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم آگ کے دریا سے نکلنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تاہم آگ کا طوفان ہمارے پیچھے ہے اور معاشی ڈراو¿نا خواب بھی ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر ہم ’آگ کے دریا‘ عبور کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ اس کا جواب ایک سادہ حقیقت میں مضمر ہے۔ ’معیشت کی بہتری کے لئے سیاسی مداخلت کو کم سے کم کیا جائے۔ ہماری کوششیں اور حکمت عملی جن کا خاص مقصد معاشی فیصلہ سازی پر ہو اور خالص سیاسی سوچ کا اثر و رسوخ بھی محدود ہو۔‘ جنوبی کوریا‘ سنگاپور‘ ملائشیا‘ تائیوان‘ ویت نام‘ انڈونیشیا‘ روانڈا‘ بنگلہ دیش‘ ایتھوپیا‘ کینیا‘ تنزانیہ‘ بوٹسوانا اور نمیبیا کی اقتصادی کامیابی کی کہانیاں قابل غور ہیں۔ اِن سبھی ممالک نے معاشی فیصلہ سازی کو بہتر بنانے کے لئے ’سیاست کو کم سے کم کیا۔‘ کیا پاکستان جس آگ کے دریا سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے تو اِس نے کوئی سبق بھی سیکھا ہے اور اب یہ پہلے سے زیادہ دانش مند ہو چکا ہے؟ کیا یہی وہ لمحہ ہو سکتا ہے جب ہم یہ تسلیم کر لیں کہ قومی معاشی فیصلے سیاسی ترجیحات کی روشنی میں نہیں ہونے چاہئیں؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)