بچے اور موسمیاتی خطرات

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی) کے نفاذ سے متعلق ذیلی اداروں کا ساٹھواں اجلاس جرمنی کے شہر بون میں جاری ہے۔ ورلڈ کانفرنس سنٹر میں ہونیوالے اس اجلاس میں“سی او پی 29“ سے قبل پیشرفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ آذربائیجان کے شہر باکو میں ہونے والے یو این ایف سی او پی کے حالیہ اجلاس کے دوران‘ تقریباً دو سو ممالک کے مندوبین آب و ہوا کی مالی اعانت کے اہم اہداف پورا کرنے اور پیرس معاہدے کے اہداف کے حصول کیلئے موسمیاتی تبدیلی پر کوششیں تیز کرنے کیلئے اتفاق رائے پیدا کرینگے۔ اس تناظر میں‘ سی او پی اٹھائیس میں پہلے گلوبل سٹاک ٹیک کی تکمیل کیلئے فریقین نے ماتحت ادارہ برائے نفاذ (ایس بی آئی) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ساٹھویں سیشن کے دوران بچوں اور آب و ہوا کی تبدیلی پر غور کرے۔ اس موضوع پر مکالمے کا مقصد بچوں پر آب و ہوا کی تبدیلی کے غیر متناسب اثرات کا جائزہ لینا اور مناسب پالیسی اقدامات کی تلاش ہے۔ اس اقدام میں اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں‘ بین الاقوامی تنظیموں اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی شامل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں سی او پی اٹھائیس کے دوران‘ پیرس معاہدے کے فریقین نے اجتماعی طور پر بچوں کے حقوق‘ مختلف ضروریات اور نقطہ نظر کو تسلیم کرنے‘ اس بارے میں وکالت اور غوروخوض کی اہمیت پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے باوجود‘ بچے‘ جو عالمی آبادی کا ایک تہائی ہیں‘ انہیں غربت کے ساتھ دوہرے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ بنیادی طور پر‘ آب و ہوا کے بحران کو بچوں کے حقوق سے متعلق بحران کے طور پر دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ بچے اپنی مخصوص خصوصیات کی وجہ سے آب و ہوا کی تبدیلی سے نمایاں اور مختلف طور پر متاثر ہوتے ہیں‘ مثال کے طور پر موسمیاتی تبدیلی سے دنیا بھر میں بیماریوں کا تناسب اٹھاسی فیصد ہو چکا ہے اور اس سے پانچ سال یا اس سے کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ بچوں اور آب و ہوا کی تبدیلی پر ’ایس بی 68‘ نامی اجلاس کے دوران ماہرین کے درمیان مکالمہ ہوا جو ایک اہم سنگ میل ہے۔ گرین کلائمیٹ فنڈ جیسی کچھ فنڈنگ فراہم کی گئی ہے جو تحفظ ماحول کی کوششوں میں قابل ستائش ہے۔ آب و ہوا کے انصاف کے حصول اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے تحت مسئلے کا مساوی حل یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے۔ ’ایس بی ساٹھ‘ کے دوران موافقت پر ماہرین کے مکالمے اور مذاکرات میں ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات کے فریم ورک فار گلوبل کلائمیٹ ریزیلینس کے تحت بچوں کے حساس میٹرکس کی سفارش کی جائے گی‘ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بچوں کی صحت اور پرورش پر پڑنے والے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے تعلیم کے شعبے‘ انسانی نقل و حرکت اور ذہنی صحت پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا قیام موسمیاتی انصاف کی سمت میں بڑا سنگ میل رہا ہے تاہم بچوں کو ہونے والے نقصانات اور ان نقصانات کے نتائج‘ خاص طور پر موسمیاتی بحران میں سرفہرست ہیں اور ان کی علمی نشوونما‘ صحت‘ تعلیم‘ تشدد‘ استحصال اور بدسلوکی کے خطرے پر مستقل آب و ہوا سے پیدا ہونے والے اثرات دور کرنا کسی بھی ملک کی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔ اسی طرح وارسا انٹرنیشنل میکانزم (ڈبلیو آئی ایم) کے آئندہ جائزے میں بچوں پر معاشی اور غیرمعاشی نقصانات و اثرات پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے گی‘ جس میں خصوصی ماہرین کے پینل اور سینٹیاگو نیٹ ورک کی سرگرمیاں شامل ہوں گی۔ بچوں کو ماحولیاتی اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے زیادہ مالی وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے‘ جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کے بجائے گرانٹ کی شکل میں دی جانی چاہئیں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک پاکستان جیسے ماحولیاتی متاثرہ ممالک کیلئے زیادہ مالی وسائل مختص کریں اور فنڈز کو بچوں کیلئے ضروری سماجی خدمات کی تعمیر نو اور بحالی کیلئے بروئے کار لایا جائے یعنی عالمی امداد سے تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال‘ غذائیت‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ صفائی ستھرائی اور سماجی تحفظ جیسے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔ موجودہ حکومت کیلئے یہ ایک مشکل کام ہے کہ وہ اپنے وسائل سے آب و ہوا سے متعلق سماجی انصاف اور انسانی حقوق کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے‘ جس میں بچوں کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے لہٰذا ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا جائے کہ وہ بچوں اور مالی و سماجی طور پر کمزور طبقات یا برادریوں کی بہبود و بحالی کے لئے مالی اعانت فراہم کریں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رضا حسین قاضی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)