مقبوضہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کا مستقبل

ستائیس اکتوبر 1947ء سے مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی‘ دیرینہ اور ایک حل طلب مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان کا مستقل مؤقف ہے کہ یہ تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ اپنے اِس اَصولی مؤقف کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام آباد نے نئی دہلی کو تنازعہ کے پرامن حل کے لئے قائل کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے کوشش کی ہے۔ پاکستان ہمسایہ ممالک سے تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عالمی سطح پر تسلیم شدہ تقریباً تمام طریقوں کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے شملہ معاہدے کے ذریعے دو طرفہ نقطہ نظر جیسے کئی سفارتی ذرائع آزمائے ہیں۔ اسی طرح پاکستان نے کسی تیسرے ملک کو ثالث کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ناکام رہا۔ ضیاء الحق اور راجیو گاندھی کے دور میں اسلام آباد نے ’باٹم اپ اپروچ‘ اپنانے کی کوشش کی جہاں سیاچن‘ سر کریک جیسے کم پیچیدہ سیاسی معاملات‘ ویزا نظام سے متعلق امور اور لوگوں کے درمیان رابطے میں بہتری پر تبادلہئ خیال کیا گیا‘ یہ سب اِس امید میں کیا گیا کہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول بھارت کو تنازعہ کشمیر کو حل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اُنیس سو نوے اور سال دوہزار کی دہائیوں میں آئی کے گجرال سے لے کر منموہن سنگھ تک (بھارتی قیادت)‘ پاکستان کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایم) اور جامع بات چیت کی لیکن کشمیر کے بارے میں  بھارت کی الجھی ہوئی ذہنیت تبدیل نہ ہو سکی۔ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور حکومت میں اس تنازعے میں مزید پیچیدگیوں کی پرتیں شامل ہو گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں سال دوہزار اُنیس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں بات چیت کے ادوار ہوئے۔ موضوع مقبوضہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کا مستقبل تھا۔ اس کوشش کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ نئی دہلی میں انتخابی عمل سیاسی تبدیلی لا سکتا ہے اور دوطرفہ تجارت کی بحالی اور سفارتی تعلقات میں بھی بہتری کے لئے ماحول سازگار بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی بات چیت پاک بھارت تعلقات اور تنازعہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لئے اہم ہے تاہم کشمیر پر طویل مدتی‘ متحرک اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی معاشی اور سیاسی طور پر مشکل کی اس گھڑی میں چار اصولوں پر مبنی ہونی چاہئے: داخلی استحکام‘ صبر و تحمل‘ عالمی شراکت داری کا فروغ اور مربوط کشمیر حکمت عملی۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو سیاسی طور پر مستحکم اور معاشی طور پر بحال کرنے کے لئے ’داخلی استحکام‘ کے لئے واضح روڈ میپ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس وہ تمام اجزا موجود ہیں جو ایک جدوجہد کرنے والی قوم کو دنیا میں سیاسی اور معاشی طور پر بااثر ریاست میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ ایک اہم جغرافیائی محل وقوع‘  بندرگاہوں‘ مضبوط مسلح افواج‘ متحرک نوجوان افرادی قوت‘ ورثہ اور ثقافت‘ سافٹ پاور اور متحرک سول سوسائٹی کے ساتھ پاکستان دنیا کی ترقی پسند قوموں کی دوڑ میں دوبارہ شامل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم دس سے پندرہ سال کے اندرونی استحکام کے واضح روڈ میپ کی ضرورت ہے جہاں پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران‘ قومی قرضوں‘ تجارتی خسارے اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں جیسے کئی شیطانی چکر سے باہر نکلنے میں مدد ملے۔ برآمدات کی صلاحیت میں بہتری‘ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی کامیاب تکمیل اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو راغب کرنے سے معاشی بحالی ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ریاستی اداروں اور عوامی سطح پر صبر و تحمل کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ داخلی استحکام کے دور میں ساختی اصلاحات کا تکلیف دہ عمل حوصلہ شکنی کا باعث ہو سکتا ہے۔ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ داخلی استحکام کے دور میں عوام کو متحد رکھے اور ایسے اقدامات کرے جس سے عوام کے حوصلے بلند ہوں۔ اسی طرح سول اور ملٹری ریاستی اداروں کو بھی نئی دہلی کو یک طرفہ مراعات دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ درحقیقت نئی دہلی کو اسلام آباد کے مثبت اشاروں سے حوصلہ ملتا ہے اور وہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نظر کی غلط تشریح کرتا ہے۔ تیسرا‘ بین الاقوامی برادری کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینا عملی آپشن ہے۔ جنوبی ایشیائی ریاستوں سے لے کر دنیا کے اہم دارالحکومتوں تک‘ پاکستان کو بین الاقوامی سیاست میں اسٹریٹجک طور پر اہم رہنے کے لئے مضبوط تعاون اور متحرک تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔ مالدیپ‘ سری لنکا اور نیپال جیسے جنوبی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا قومی ترجیح ہونی چاہئے۔ جنوبی ایشیا کی چھوٹی ریاستوں کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادی خصوصیات دفاعی تعاون‘ عوامی رابطوں اور دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ اسی طرح خلیجی ممالک اور پی فائیو ریاستوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو بھی مضبوط بنانا قومی ترجیح ہونی چاہئے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے لئے حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی بھارت کی حکمت عملی کو بھی شکست ہو گی۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خرم عباس۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
 آخر میں‘ قومی سطح پر ایک طویل مدتی ’مربوط کشمیر حکمت عملی‘ کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہ ہوئے بغیر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنے مؤقف کا دفاع کر سکتا ہے جس کے لئے تعلیمی اداروں‘ سفارتی چینلز اور میڈیا کے وسائل بروئے کار لا کر بین الاقوامی آگاہی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جانا چاہئے۔