ڈونلڈ ٹرمپ صدر کم اور ایک شاطر بزنس مین زیادہ نظر آ تا ہے جس چابک دستی کیساتھ اس نے عرب امارات کے حکمرانوں کو بھاری رقم کا امریکی اسلحہ اورہوائی جہاز خریدنے پر راضی کیا ہے وہ اس کی بطور ایک سیلز مین کامیاب تجارتی صلاحیت کا مظہر ہے‘ ایران البتہ امریکہ کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے‘ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ایک عرصے سے امریکہ کے اندر موجود یہودی لابی اتنی مضبوط ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو امریکہ کا صدر بننے ہی نہیں دیتی جو اس کے اشاروں پر نہ چلتا ہو‘ بھارت اور چین کے درمیان ہماچل پردیش پر جھگڑا پھر سر اٹھا رہا ہے جو نریندر مودی کیلئے درد سر بن رہا ہے۔ روس اور یوکرائن میں براہ راست مذاکرات جو ترکی میں ہو ر ہے ہیں‘ اگر کامیابی سے ہمکنار ہو جاتے ہیں تو یہ عالمی امن کیلئے بڑے سود مند ہو سکتے ہیں۔ آج اگر دنیا میں چین کی جے جے کار ہے تواس کے پیچھے اس کی اعلیٰ ڈپلومیسی کا بڑا ہاتھ ہے ایران اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی سے خراب تھے اور اب جو امریکہ نے ان ممالک کے ساتھ پنگا لینے کی کوشش کی ہے کہ جو ایران سے تیل خریدیں گے تو اس سے ایران اور امریکہ کے تعلقات مزید بگڑیں گے امریکہ میں یہودیوں کی لابی ٹرمپ کی پالیسیوں پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے اکثر لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں لیکن باوجود اس حقیقت کے کہ روس اور چین دونوں کمیونسٹ ممالک ہیں اتنے لمبے عرصے تک وہ آپس میں شیروشکر کیوں نہ رہے اس کا جواب یہ ہے کہ لینن کے بعد روس میں پیوٹن کے ایوان حکومت میں آنے کے بعد ایسے لیڈر برسراقتدار رہے جن کی سیاسی سوچ اور دانشمندی پر کئی سوالیہ نشانات اٹھتے ہیں اگر وہ پیوٹن کی طرح دور اندیش ہوتے تو روس چین کے ساتھ کب کا شیروشکر ہو چکا ہوتا۔ آئیے کچھ ذکر کرکٹ کمنٹریٹرزکا ہوجائے جن کا طوطی بولتا تھا۔یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب ٹیلی ویژن کا ظہور وطن عزیز میں نہیں ہوا تھا اور کرکٹ میچوں پر رننگ کمنٹری صرف ریڈیو پاکستان پرہوتی تھی یوں کہہ لیجیے یہ زمانہ 1950 ء سے لے کے 1966ء کے عرصے پر محیط تھا‘ عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی ریڈیو پاکستان سے کرکٹ میچوں پر کمنٹری نشر کرتی‘عمر قریشی تو بنیادی طور پر انگریزی زبان کے صحافی تھے‘ جمشید مارکر کا تعلق کراچی کی ایک پارسی فیملی کے ساتھ تھا جو بعد میں پاکستان کی فارن سروس میں شامل ہو گئے تھے اور وہ کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے‘ انہوں نے اپنے سفارتی سفر پر ایک کتاب بھی لکھی جس کو سفارتی حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی‘یہ دونوں کمنٹریٹرزغضب کی انگریزی بولتے‘ان کو انگریزی زبان پر مکمل عبور تھا‘ ہماری جنریشن سے تعلق رکھنے والے طالب علم ان کی کمنٹری سن کر اپنا انگریزی زبان کا تلفظ درست کرتے تھے جس طرح کسی دور میں انگلستان کے جان ارلٹ کا شمار انگلستان کے بہترین کمنٹریٹرز میں ہوتا تھا بالکل اسی طرح عمر قریشی اور جمشید مارکر کو وطن عزیز کے کرکٹ کے شیدائی بڑے شوق سے سنا کرتے‘ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ وطن عزیز میں عمر قریشی اور جمشید مارکر جیسے کرکٹ کمنٹریٹرز پھر پیدا نہیں ہوئے‘ ٹیلی ویژن کے ظہور کے بعد عمر قریشی نے چند میچوں کی ٹی وی سے بھی رننگ کمنٹری کی‘ کرکٹ کمنٹری کا وہ ایک جو کلچر ریڈیو پر عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی نے بنایا تھا وہ ریڈیو پر یہ سلسلہ بند ہونے سے دم توڑ گیا‘ یہ تو خیر ہم نے ریڈیو پاکستان کے زمانہ عروج کے ایک محدود پروگرام کی بات چھیڑی ہے‘ اسی طرح کے کئی دیگر نشریاتی پروگراموں نے عوامی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے‘جو اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں‘ ریڈیو پاکستان سے قومی سطح کے اردو زبان میں مشاعرے ہوا کرتے تھے جو اب ایک عرصے سے نہیں ہو رہے۔ ہر گھنٹے بعد شکیل احمد‘ مسعود تابش اور انور بہزاد کی آ واز میں خبریں نشر ہوا کرتی تھیں جو بے حد مقبول عام تھیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
چند ناقابل تردید حقائق
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرق صاف ظاہر ہے
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
چین کی ٹیکنالوجی کی برتری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
لاتوں کے بھوت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ بمقابلہ چین
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
گم گشتہ شہر کی تلاش (حصہ دوم)
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
منگل اور بدھ کی درمیانی شب
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
خود کردہ را علاج نیست
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
بھارت کے مکرو فریب
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
اہم قومی و عالمی امور
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ