کشمیر کی کہانی خود اس کی زبانی

اس سے پیشتر کہ ہم آج کے کالم کے عنوان کی طرف  آئیں‘ذکرہو جائے اردو زبان کے عظیم شاعر میر تقی میر کے ایک شعر کا کہ جس میں انہوں نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے‘ کارل مارکس نے تو دنیا کے غریب عوام کی معاشی حالت سدھارنے کے لئے ایک ضخیم کتاب لکھی جس کا نام ہے داس کپیٹل das capital‘
رئیس زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر 
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے 
میر کے اس معنی خیز شعر کے  بعد ملا خطہ کیجئے کشمیر کی کہانی خود اسکی زبانی۔ صدیاں بیت گئیں میرے وجود کو قائم ہوئے میں وہ وادی ہوں جسے لکھاریوں اور شاعروں نے زمین پر جنت کہا ہے پر میری خوبصورت تصویر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے میری خوشبوؤں  میں آگ اور بارود کی بدبو بھی ایک عرصے سے شامل ہو چکی ہے‘ میرے خوبصورت سر سبزشجر جو  کبھی میرے حسن میں چار  چاند لگاتے تھے  اب گل سڑ کر عریاں ہو گئے ہیں‘میری سر سبز وادی جو کبھی پھولوں کا مسکن تھی اب خون میں نہلا ئی ہوئی ہے‘ میری نہروں کا شفاف پانی اب ان معصوم کشمیریوں کے خون سے دھندلا اورنسواری سرخ ہو گیا ہے کہ جنہوں نے بھارت کی بر بریت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا‘ آج میری وادی خون میں نہلا رہی ہے‘میری مثال اس عمر رسیدہ بوڑھے کی مانند ہے کہ جس نے اپنی تمام عمر اس امید میں بتا دی کہ اس کی جنم بھومی آزادی اور امن سے  ہمکنارہو‘پر اس کی یہ آ رزو ابھی تشنہ تکمیل ہے میری مثال اس جواں سال فرد جیسی بھی ہے جس کی آ نکھوں میں یہ خواب ہے کہ اس کا وطن ایک آ زاد خود مختار علاقہ ہو‘ اور اس مقصد کے حصول کے واسطے وہ اپنی آخری سا نس تک لڑ رہا ہے۔ میری مثال اس خاتون کی طرح بھی ہے کہ جس کے بال بچوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے‘ شہید کیا جا رہا ہے جو چیختی پکارتی ہے اور روزانہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں کو لحد میں اتارا جاتا ہے‘ میر ی مثال اس بیوی کی طرح بے جو شادی کے وقت یہ حلف اٹھاتی ہے کہ آنے والی صبح وہ بیوہ ہو سکتی ہے‘ میری مثال اس عورت کی طرح بھی ہے جسے ہر روز اس ملک کی فوج کے سپاہی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں‘جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک ہے۔میری مثال اس بچے جیسی ہے جو اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے کہ جو ظلم‘تکلیف اور غیر یقینی حالات کا شکار ہے  جوں ہی وہ  چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے وہ کھیل کود کے بجائے یہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے اپنے خاندان اور اپنے وطن کی حفاظت کیسے کی جائے‘ میرے لئے زندگی کا سفر کھٹن ہے‘ میرے دشمنوں نے میرے جسم پر ہزاروں زخم لگائے ہیں جن سے خون رستا ہے پر وہ میرے حوصلے کو متزلزل نہیں کر سکے اور میرے دل میں آزادی حاصل کرنے کی جو آگ لگی ہوئی ہے اسے بجھا نہیں سکے‘یہ وہ آزادی کی آگ ہے جو سات عشروں سے جل رہی ہے۔