برصغیر فلم انڈسٹری کا پہلا سپر سٹار 

 خاموش فلموں کا زمانہ تھا ابھی ٹاکیز کا دور برصغیر کی فلم انڈسٹری میں شروع نہیں ہوا تھا‘اور کلکتہ، بمبئی مدراس اور لاہور فلمی صنعت کے مراکز تھے پیرپیائی نوشہرہ میں 1905ء میں جنم لینے والا حمیدگل پولیس میں بھرتی تھا اور اسے ڈیوٹی کے تقاضے لاہور لے گئے تھے وہاں اس وقت کے معروف فلم پروڈیوسر اے آر کاردار کی ایک محفل میں جب اس پر اتفاق سے نظر پڑتی ہے تو اس کے قدبت شکل و صورت کا گرویدہ ہو کر وہ اسے فلمی ایکٹر بننے کی پیش کرتے ہیں جو گل حمید قبول کر لیتا ہے اور اس طرح اس کا فلمی سفر اسے پہلے لاہور اور بعد میں بمبئی اور کلکتہ بھی لے جاتا ہے جہاں وہ ایک درجن کے قریب فلموں میں کام کرتا ہے جیسا کہ رانجھا‘ یہودی کی لڑکی‘ سیتا اور چندر 
گپت اس کا اس زمانے کی ایک فلم اداکارہ پیشنس کوپر سے پیار ہو جاتا ہے وہ مسلمان ہو کر اس سے شادی کر لیتی ہے اور اپنا نام صابرہ سلطانہ رکھ لیتی ہے گل حمید خیبر پاس کے نام سے ایک فلم پر کام کر رہا ہوتا ہے کہ وہ گلے کے کینسر کا شکار ہو جاتا ہے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈاکٹر اسکا آپریشن کرنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں کہ موت ان کو آ ن گھیرتی ہے اور 1936ء میں صرف 29 برس کی عمر میں یہ خوبرو فلم ہیرو انتقال کر جاتا ہے۔ فلمی مبصرین کی متفقہ رائے ہے کہ 1913ء سے لیکر کہ جب اس خطے میں فلمیں بننا شروع ہوئی تھیں آج تک اس علاقے میں اتنا خوبرو ہیرو فلم انڈسٹری نے پھر نہیں دیکھا گل حمید امان گڑھ نوشہرہ کے قریب ایک چھوٹے سے قبرستان میں مٹی کی چادر اوڑھے لمبی نیند سو رہا ہے کسی ٹی وی چینل کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس فلمی شخصیت پر دستاویزی فلم بنائے‘ یاد رہے کہ گل حمید کی فلم سیتا برصغیر کی پہلی فلم تھی جو 1934ء کے وینس کے فلمی میلے میں دکھلائی گئی تھی اور اسے اعزازی ڈپلومہ سے بھی نوازاگیا تھا۔