گرمی کی لہر اور چین سے مراسم

گو کہ ملک میں ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ کاربن کا استعمال کرنے والے بڑے بڑے ممالک ہیں پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنی سطح پرہم اس مصیبت کا مقابلہ کرنے کے واسطے جو اقدامات اٹھا رہے ہیں وہ ناکافی نظر آتے ہیں مثلاً ملک میں درختوں کا بے دریغ کٹاؤ جاری  ہے‘ نہ صرف یہ کہ آبادیوں کا بے ہنگم پھیلاؤ بھی جاری ہے‘ زراعت اور پارکوں کے واسطے درکار جگہوں کا سکڑا ؤاور زیر زمین پانی کے بڑے پیمانے پر نکالے جانے سے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات مزید زیادہ ہو رہے ہیں۔اس صورت حال سے ملک کے کئی علاقے کئی کئی سینٹی  میٹر دھنس رہے ہیں‘ اگر خارجی سطح پر ہمیں بھارت کی ریشہ دوانیوں کا خطرہ ہے تو اندرونی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے ہماری فصلوں اور اجناس کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اس گھمبیر اندرونی صورت حال میں البتہ  اچھی خبر وہ اعلان ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان چین سے 40 جدید 35  پانچویں جنریشن سٹیلتھ لڑاکا طیاروں کے جے 500‘اواکس فضائی نگرانی کے طیاروں اور ایچ کیو 19 میزائل نظام کی خریداری کر رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کی افواج میں جو حالیہ جھڑپ ہوئی ہے اور اس میں چین کے تیار کردہ جس  اسلحہ نے اپنی برتری ثابت کی ہے اس سے افواج پاکستان کو لیس کرنا دانش مندی کی بات  ہے‘ ہم نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک مختلف ممالک کو کافی آ زمایا ہے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ما سوائے چین  اور ترکی کے باقی  ممالک نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ہم سے مطلب کے یارانے رکھے ہیں۔اب ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں‘ چین اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو مزید وسیع کیا جائے‘دیگر ممالک سے بھی دو طرفہ بنیاد پر خوشگوار تعلقات رکھنا ضروری ہے‘پر ان پر یہ تکیہ کرنا کہ مشکل وقت میں وہ ہمارے کسی  کام آئیں گے‘اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا،روس کے ساتھ ہمیں نہایت دوستانہ تعلقات قائم رکھنا چاہئیں اور اس ضمن میں چین کو ہر وقت اعتماد میں رکھنا ضروری ہوگا،ہمیں ایسی خارجہ پالیسی وضع کرنا ہوگی کہ اپنی اپنی جگہ چین اور روس دونوں سے ہمارے تعلقات اچھے رہیں۔

‘پر چین کے ساتھ خصوصی طور پر بہت بہتر ہوں حکومت روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو،بہتر بنانے کی جو کوشش کر رہی ہے وہ قابل تعریف ہے۔یاد رہے کہ قیام پاکستان کے فوراًبعد سے ہی ہم امریکہ کی گود میں نہ جا بیٹھتے  اور اس کے کہنے پر اس وقت کے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی سرد جنگ کا حصہ نہ بنتے تو ہم ماسکو کا اعتماد کبھی نہ کھوتے اور کئی تنازعات سے محفوظ رہتے۔ اگر ہم 1951 ء کے بعد سے امریکہ اور سوویت یونین  کے ساتھ اپنے تعلقات میں بیلنس رکھتے اور صرف امریکہ کی طرف ہی ہماراجھکاو نہ ہوتا تو سوویت یونین کا رویہ ہمارے خلاف اتنا سخت نہ ہوتا۔بہر حال صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔