زرعی خودانحصاری

ماحولیاتی عدم استحکام‘ تنازعات اور عالمی سپلائی چین میں خلل کے دور میں‘ غذائی تحفظ کمزور معیشتوں کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ ورلڈ بینک‘ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) اور ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی مرتبہ کردہ حالیہ مشترکہ رپورٹ میں اناج کے ذخائر (ایس جی آرز) کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے جو ممکنہ غذائی بحرانوں سے قوموں کو بچانے کیلئے ضروری ہے۔ رپورٹ میں خوراک کی قلت‘ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ہنگامی حالات کے دوران بفرز کے طور پر ایس جی آرز کے کردار کا جائزہ بھی لیا گیا ہے‘ خاص طور پر ان ممالک میں جو اس حوالے سے متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے نتائج خاص طور پر پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ پاکستان میں زراعت چوبیس کروڑ سے زائد آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے‘ جو داخلی انتظامی مسائل اور موسمیاتی محرکات کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں کاشتکاروں کو درپیش مشکلات‘ غذائی افراط زر کی بلند شرح اور بدلتے موسموں نے قومی سطح پر غذائی تحفظ کے بحران کی 
صورت اختیار کرلی ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی غماز ہے کہ موجودہ حکمت عملیوں میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایسے میں اسٹرٹیجک اناج کے ذخائر کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ یہ غذائی تحفظ کی سمت مؤثر اور دیرپا قدم بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ زراعت قومی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہے‘ جو نہ صرف جی ڈی پی میں تقریباً چوبیس فیصد حصہ ڈالتی ہے بلکہ تقریباً سینتیس فیصد افرادی قوت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روزگار بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف دیہی معیشت کو سہارا دیتا ہے بلکہ چاول‘ پھلوں‘ سبزی‘ کپاس اور ٹیکسٹائل کے ذریعے پاکستان کی برآمدی معیشت میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بنیادی ستون اس وقت کئی محاذوں پر دباؤ کا شکار ہے۔ زرعی پیداوار میں مسلسل جمود‘ مٹی کی زرخیزی میں کمی‘ معیاری بیجوں کی عدم دستیابی‘ جدید زرعی آلات تک محدود رسائی اور زمینوں کی تقسیم جیسے مسائل فصلوں کی پیداوار کو متاثر کر رہے ہیں۔ چھوٹے کسان ابھی بھی پرانے طریقوں پر انحصار کئے ہوئے ہیں اور انہیں جدید تحقیق یا ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی۔ پانی کی شدید قلت ایک اور بڑا بحران ہے۔ پاکستان کی زراعت کا انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے مگر ناقص آبپاشی کے طریقے اور بے لگام زیر زمین پانی کے اخراج نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ کھاد‘ ڈیزل اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں بھی چھوٹے کسانوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں اور منافع کے معمولی مارجن کو مزید کم کر چکی ہیں۔ اس سارے منظرنامے کو موسمیاتی تبدیلی نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے شدید سیلاب‘ طویل خشک سالی اور درجہ حرارت کی شدید لہروں کا سامنا کیا ہے۔ سال دوہزاربائیس کا سیلاب اس کی ایک مثال ہے‘ جس میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین زیر آب آ گئی۔ اس سے پیداوار متاثر ہوئی 
اور زرعی کیلنڈر بے معنی ہو کر رہ گیا۔ ایسے میں حالیہ کامیابیاں‘ جیسا کہ ہائبرڈ بیجوں سے چاول اور مکئی کی پیداوار میں اضافہ‘ ایک امید ضرور دلاتی ہیں مگر یہ مثالیں عام رجحان نہیں بن سکیں۔ مجموعی زرعی نظام کو اب بھی جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں اسٹرٹیجک اناج کے ذخائرعملی اور ضروری اقدام بن کر سامنے آئے ہیں۔ حالیہ رپورٹس‘ جن میں عالمی بینک‘ ایف اے او اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی شراکت شامل ہے‘ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ نہ صرف ہنگامی حالات میں خوراک کی فوری دستیابی کو یقینی بناتے ہیں بلکہ قیمتوں میں استحکام‘ ذخیرہ اندوزی کی روک تھام‘ اور کمزور طبقات کی مدد جیسے اہم مقاصد بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں‘ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے سٹوریج انفراسٹرکچر کی تعمیر‘ لاجسٹکس کا انتظام اور غذائی ذخائر کی شفافیت ممکن بنائی جا سکتی ہے تاہم یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ صرف زرعی اجناس کا ذخیرہ کوئی جادوئی حل نہیں اگرچہ یہ فوری ریلیف کا ذریعہ بن سکتے ہیں مگر طویل المدتی حل کیلئے زرعی نظام کی مکمل اصلاح و توسیع ضروری ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حنا آئرا۔ ترجمہ ابوالحسن امام)