بھارت کی غیراعلانیہ جنگ

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان کی شریانیں ہیں‘ پاکستان کی 90 فیصد سے زیادہ زراعت کا انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے، جو ڈیموں کو بھی زندگی دیتا ہے اور ویٹ لینڈز اور ماہی گیری کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور یہی حیاتیاتی تنوع اور ساحلی برادریوں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی اہم ہیں تاہم چوبیس کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے لئے بھارت کی جانب سے آبی ہتھیاروں کا استعمال ایک ایسی حقیقت ہے جس کا تصور کرتے ہوئے روح کانپ اٹھتی ہے۔ بھارتی قیادت نے دوہزارسولہ میں شروع کی گئی طویل مدتی حکمت عملی کے طور پر پانی کی فراہمی بند کی اور اس کا مقصد پاکستان کے غذائی تحفظ کو تہس نہس کرنا تھا تاکہ پاکستان کو زیر کیا جا سکے اور اپنی اسی حکمت عملی کے تحت بھارت کی قیادت نے پہلگام حملے جیسے واقعات کروائے تاکہ پاکستان پر حملے کا جواز تراشا جا سکے۔سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی)کی معطلی پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جنگ کا محض آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد بگلیہار ڈیم کے ذریعے چناب کے بہاؤ میں اچانک نوے فیصد تک غیر اعلانیہ کمی، کشن گنگا منصوبے سے دریائے نیلم کا گلا گھونٹنا اور پکل دل اور رتلے جیسے اسٹوریج ڈیموں کی تلاش میں تیزی لائی گئی ہے۔ رنبیر نہر کی توسیع کا اعلان بھی پاک بھارت جنگ بندی کے چند دن بعد کیا گیا جس کا ثبوت سی آر پاٹل نامی بھارتی وزیر کے اس بیان میں ملتا ہے کہ بھارت پانی کا ایک قطرہ بھی پاکستان نہیں 
 پہنچنے دے گا۔ اس تناظر میں بھارت کی جانب سے بڑے پیمانے پر آبی ذخائر بھرنے سے پاکستان کو طویل عرصے تک پانی سے محروم رہنے کا خطرہ ہے۔ خشک موسم کے دوران بھارت کی جانب سے پانی کے بہاؤ میں ہیرا پھیری کی گئی جس سے پاکستان کے زرعی علاقے متاثر ہوئے۔ مزید برآں، سابق بھارتی انڈس واٹر کمشنر پردیپ سکسینہ کی رپورٹ کے مطابق سیلاب کے اہم اعداد و شمار کو ممکنہ طور پر چھپانا اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ آب و ہوا کے بحران کے اس دور میں، جہاں جنوبی ایشیا برفانی تودوں کے پگھلنے اور غیر متوقع مون سون کے سنگین خطرات سے نبرد آزما ہے، بھارت سیاسی فائدے کے لئے ماحولیاتی تنوع کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے اگرچہ یہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں لیکن اپنے ہمسایوں کے خلاف آبی (ہائیڈرو)جارحیت کا دیرینہ بھارتی طرز عمل انتہائی مکروہ ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مصطفی بلال۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)

 اگر بھارت کی ہائیڈرو جارحیت جاری رہی تو اس سے پاکستان کا آبی نظام کمزور ہو جائے گا، واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سال دوہزاردس میں پانی کو انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ پاکستان کے وزیر صحت مصطفی کمال نے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں زور دے کر کہا تھا کہ بین الاقوامی انسانی قانون (آئی ایچ ایل) بھی واضح طور پر آبی وسائل اور بنیادی ڈھانچے پر حملوں کی ممانعت ہے۔ بھارت کی آبی جنگ جنیوا کنونشن کی اجتماعی سزا پر پابندی کی بھی خلاف ورزی ہوگی اور روم قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرم قرار دی جا سکتی ہے۔دنیا کو آبی ہتھیار ناکارہ بنانے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ بھارت کی آبی جنگ سنگین منطق کی عکاسی کر رہی ہے جب جوہری ہتھیاروں سے لیس کوئی ملک دوسرے کی بقا ء کو خطرے میں ڈالتا ہے، تو اس کا نتیجہ علاقائی و ماحولیاتی تباہی کی صورت برآمد ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں آبی سفارت کاری کے نلکے بند ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ صرف خون کا بہاؤ باقی رہ جائے، عالمی رہنماوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مصطفی بلال۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔