پاکستان نے آخرکار مان لیا ہے کہ موسم کی قہر سامانی محض دور کی کوڑی نہیں۔ 2022 کے سیلاب نے ایک تہائی ملک ڈبو دیا تھا۔ اس کے بعد گرمی کی لہریں، پگھلتے گلیشیئر اور اچانک سیلاب روزمرہ معمولات زندگی کا گویا کہ حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں مالی سال 2025-26 کا وفاقی بجٹ ایک بدلا ہوا بیانیہ لے کر آیا ہے کہ اب ماحولیاتی خطرات تقریروں اور رپورٹوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ براہ راست اعدادوشمار اور فنڈز کی شکل میں نظر آ رہے ہیں۔ رواں سال پہلی بار وفاقی اخراجات کی منصوبہ بندی میں ماحولیاتی اخراجات کا باقاعدہ تذکرہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے اپنے مالیاتی نظام میں کلائمیٹ بجٹ ٹیگنگ متعارف کروا کر پانچ ہزار سے زائد منصوبوں کو موسمیاتی حکمت عملی میں شامل کر دیا ہے۔ جو سنگِ میل اقدام ہے۔ سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ تقریبا 35 فیصد نان ٹیکس آمدن اور 9 فیصد سے کچھ اوپر مجموعی ریونیو کو ماحولیاتی مد میں شمار کی گئی ہے۔ خطے میں اس سطح کا ادارہ جاتی بندوبست شاید پاکستان ہی نے کیا ہےتحفظ ماحول کے لئے مختص مالی وسائل اپنی جگہ لیکن اِس مد میں ہونے والے اخراجات میں بھی کچھ اضافہ ہوا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے، درجہ حرارت سے نمٹنے اور مطابقت پیدا کرنے کی مد میں مالی وسائل میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے مثال کے طور پر تخفیف یعنی گرین ہاوس گیسوں کا اخراج کم کرنے کے لئے رقم میں 183فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ مطابقت کے پروگراموں کی رقم بھی تقریبا دوگنی کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی عوام کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تربیت دینے اور اداروں کی صلاحیت بڑھانے کے لئے بھی مالی وسائل مختص کئے گئے ہیں۔ بات یہاں تک اچھی لگتی ہے۔ پھر اچانک کچھ اعداد چونکا دینے والے ہیں مثلا قدرتی آفات کی تیاری کی رقم میں تیس فیصد کٹوتی کر دی گئی یعنی ایک ایسا ملک جس کا ہر سال مون سون کے وقت دم گھٹتا ہے، وہاں بچاو سے زیادہ توجہ آفت کے بعد بحالی پر دی گئی ہے حالانکہ جو پیسہ آج تیاری پر لگتا وہ کل سیلاب کے بعد دگنے خرچ سے بچایا جا سکتا ہے۔ گویا ہم آج بھی زیادہ ردِ عمل دکھانے والا ملک ہیں، تحفظ ماحول کی روک تھام پر یقین ابھی ادھورا ہے۔ اس حوالے سے دوسری کمی بھی پریشان کن ہے۔ فضائی آلودگی کم کرنے کی مد میں مختص رقم میں 66 فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ یہ وہ مد ہے جس کا شہری زندگی سے براہ راست تعلق ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زینب نعیم۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
لاہور کراچی اور پشاور جیسے بڑے شہروں کی ہوا پہلے ہی زہریلی ہے۔ اب اگر فنڈز بھی کم کر دیئے جائیں گے تو ماحولیاتی مشکلات کا حل کیسے نکلے گا؟ پھر نکاسی آب اور گندے پانی کا مسئلہ بھی توجہ طلب ہے، اس مد میں اضافہ صرف پانچ فیصد ہوا ہے۔ آمدنی کے باب میں گرین ریونیو کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں 81فیصد حصہ اب بھی پٹرولیم لیوی سے آتا ہے یعنی ہم گرین بجٹ کی بات تو کر رہے ہیں لیکن آمدنی کا بڑا حصہ اب بھی ایندھن جلانے سے اکٹھا ہو رہا ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ یہ ماڈل زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہمیں ماحول دشمن ایندھن پر انحصار کم کرنا پڑے گا۔