کابل۔افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک طرف بین الافغان مذاکرات جبکہ دوسری جانب افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے
افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان فواد امان نے کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کے آغاز سے قبل توقع کی جا رہی تھی کہ طالبان کی جانب سے حملوں میں کمی آئے گی لیکن بدقسمتی سے سیکورٹی فورسز پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے.تاہم طالبان پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ بین الافغان مذکرات کے دوران جنگ بندی نہیں کریں گے جنگ بندی کا فیصلہ درست وقت آنے پر کیا جائے گا۔
افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے طالبان عسکری لحاظ سے انتہائی مضبوط پوزیشن پر ہیں جبکہ حکومتی پوزیشن بہت زیادہ کمزور ہے اور کئی علاقوں میں افغانستان کی فوج کے مقامی کمانڈروں کا طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال کر ان کے ساتھ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان جو مضبوط عسکری پوزیشن حاصل کی ہے وہ اسے گنوانا نہیں چاہتے.
ادھر افغان حکومت کے ترجمان کے مطابق مذاکرات کے آغاز سے قبل طالبان نے ملک کے مختلف علاقوں میں افغان فورسز اور سرکاری تنصیبات پر 18 حملے کیے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے ہفتے کو کیے جانے والے حملوں سے متعلق ان کے پاس درست معلومات نہیں ہیں البتہ ان حملوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان کے صوبے قندروز اور کاپیسا کے حکام نے طالبان کی جانب سے ہفتے کو کیے جانے والے حملوں کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ قندروز کی مرکزی شاہراہ پر افغان فورسز کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا ہے جو جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کی غرض سے آ رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے بغلان اور جوزوان کے صوبوں میں فضائی اور زمینی کارروائی کی تھی جس کا جواب دیا گیا۔