سیاسی ترجیحات۔۔۔۔

سیاست میں ذاتی مفادات کی اسیری نئی بات نہیں بلکہ یہ شاید اُس دن سے رائج ہے جب سے جمہوری نظام وجود میں آیا ہوگا لیکن جن ممالک میں جمہوریت مضبوط اور مفید طرز حکمرانی کے طور رائج ہے وہاں مقبول سیاست کے امکانات کو کم سے کم کیا جا رہا ہے اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ شخصیت کی بجائے نظام کی مضبوطی پر توجہ دی جائے۔ حالیہ عشروں میں دنیا کے جن ممالک نے مقبول سیاست کو دیکھا اور جہاں شخصیات سیاست پر حاوی رہیں اُن میں امریکہ‘ برطانیہ‘ بھارت‘ برازیل اور روس شامل ہیں۔ اِس بارے میں کئے گئے 152 ممالک (جن میں 33 وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں مقبول سیاست ہوتی ہے) کے سروے میں معلوم ہوا کہ مقبول سیاست کرنے والے کرداروں میں چار خصوصیات ہوتی ہیں۔ پہلی خصوصیت خود اعتمادی ہوتی ہے کہ مقبول سیاست دان اِس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ اُن کے پاس مسائل کا حل موجود ہے۔ دوسری خصوصیت وہ اپنی ذات ہی کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں یعنی خودپسند ہوتے ہیں۔ تیسری خصوصیت اُن کی بے حسی ہوتی ہے کہ چاہے اُن کی حکمت عملیوں یا اُن کی قیادت میں کتنا ہی بڑا نقصان ہو جائے لیکن وہ اُس کا زیادہ اثر نہیں لیتے۔ چوتھی مشترک خصوصیت مصلحت شناسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے یا اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے نظریات کی قربانی دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ سروے سے 2 ایسی منفی مشترکات بھی معلوم ہوئیں جن کی وجہ سے مقبول سیاست کرنے والے غیرمقبول بھی ہوتے ہیں۔ پہلی منفی بات ذہنی استحکام کا نہ ہونا ہوتا ہے جبکہ دوسرا منفی پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسروں کا کام بھی کرنے کی خواہش و کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کے کام سے مطلب ہے کہ وہ ایسا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا اُنہیں علم یا تجربہ نہیں ہوتا۔مقبول سیاست کے پانچ ایسے پہلو ہیں جن کا معاشی بہتری سے تعلق نہیں ہوتا۔ وہ معاشرے کو تقسیم کر دیتے ہیں۔ وہ معاشرے میں پائے جانے والے اختلافات کو بڑھاتے ہیں۔ وہ عوام میں بے چینی پیدا کرتے ہیں۔ اُن کی خارجہ پالیسی ناکام ہوتی ہے بلکہ تباہ کن ہوتی ہے اور اُن میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ مشاورت سے اجتماعی فیصلے کر سکیں۔ ان سبھی باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک کی شرح نمو کم رہتی ہے۔ بجٹ خسارے میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرمایہ کاری کم رہتی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کاروباری اداروں میں مقابلے کی فضا نہیں بنتی جس سے صارفین کے مفادات کا تحفظ نہیں ہوتا۔ ملک کی معاشی و اقتصادی پیداواری صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بدعنوانی (کرپشن) میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور مخصوص لوگوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہتا ہے۔مقبول سیاست کرنے والوں کا طرزعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام تر خرابیوں کیلئے اپنے سیاسی مخالفین کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اِس طرح کے بیانئے سے عوام اور بدعنوانوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کر دیا جا تاہے جبکہ ضرورت اِس بات کی رہتی ہے کہ بدعنوانوں سے بذریعہ قانون نمٹا جائے اور اُن کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)