اہم بین الاقوامی اور ملکی امور کا جائزہ

برطانیہ کا سابق وزیراعظم بورس جانسن ایک لااُبالی قسم کا فرد تھا۔ لہٰذا بہت لوگ اس کے اس تازہ ترین بیان پر شاید سو فیصد یقین نہ کریں کہ روسی صدر نے اسے قتل کی دھمکی دی تھی‘ہاں البتہ اس کا یہ بیان قابل یقین ہو سکتا ہے کہ اس نے روسی صدر کو کہا تھا کہ یوکرین میں فوجی آپریشن مکمل تباہی ہو گااور روسی جارحیت پر لندن کیف کی مدد کرے گا۔کیونکہ بعد میں برطانیہ نے بالکل وہی کچھ کیا جو جانسن نے مندرجہ بالا بیان میں کہا۔اس بات کی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ لداخ میں 2ہزار کلومیٹرز کا بھارتی علاقہ چین نے قبضے میں لے لیا ہے‘بہت سے پٹرولنگ پوائنٹس بھی چینیوں کے قبضے میں ہیں بھارتی افواج کا مورال بہت گر چکا ہے اور 1960 کی دہائی میں اس کی چین نے جو سرحدی جنگ میں پٹائی کی تھی اسکے زخم وہ اب تک چاٹ رہی ہے۔ اب کچھ دیگر اہم امور کا تذکرہ ہوجائے۔ ان دنوں ملک شدید معاشی بحران سے دوچار ہے جس میں توانائی کی قلت کا اہم کردار ہے۔ ایسے میں روس سے سستے تیل کا معاہدہ اہم پیش رفت ہے۔ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ ملکی ضرورت کے پیشِ نظر روس سے توانائی حاصل کرنے کے لئے طویل مدت کے معاہدے چاہتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ کوئی تیسرا ملک ہمارے دوطرفہ تعلقات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بات چیت کے ذریعے یوکرین تنازع کا پر امن حل چاہتا ہے۔ ان کے بقول، پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کو اس جنگ کے نتیجے میں سامنے آنے والے منفی معاشی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان روس کے ساتھ گہرے تعلقات کا خواہاں ہے اور اس دورے میں سرگئی لاروف کے ساتھ دو طرفہ امور سمیت عالمی فورم پر تعاون کے فروغ پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان اور روس کے درمیان تعاون پایا جاتا ہے۔گزشتہ برس پاکستان میں اتحادی حکومت کے قائم ہونے کے بعد وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ پہلا دورہ روس ہے۔ بلاول روسی ہم منصب سرگئی لاروف کی دعوت پر روس کا دورہ کررہے ہیں۔پاکستان کے وزیر خارجہ کا دورہ ماسکو ایسے وقت میں ہورہا ہے جب امریکہ اور مغربی ممالک زور دے رہے ہیں کہ روس پر معاشی دباو بڑھانے کے لئے روسی تیل اور گیس پر انحصار ختم کیا جائے۔ جب کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی دفاعی امداد سے متعلق بھی اہم اعلانات کرچکے ہیں۔اس موقعے پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ روس پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی حکمت عملی پر گامزن ہے اور اس ضمن میں تعاون کے نئے مواقع بھی تلاش کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں مشترکہ فوجی مشقوں اور تعلیم کے شعبے میں تعاون میں اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کیساتھ جلد توانائی کے معاہدے کیے جائیں گے‘ان کے بقول، امریکہ یقینی طور پر اس دوطرفہ معاملے میں دخل اندازی کرے گا۔انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نے چین، ترکی اور بھارت کو بھی روس کے ساتھ تعاون اور تیل کے حصول کے بارے میں پیغامات بجھوائے ہیں‘خیال رہے کہ رواں ماہ ہی روس کے وزیرِ توانائی کی سربراہی میں بین الحکومتی کمیشن نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور جس میں طے پایا تھا کہ روس پاکستان کو رعایتی نرخوں پر تیل اور گیس فراہم کرے گا۔پاکستان کو اس وقت زرِمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کے توازن کا چیلنج درپیش ہے اور پاکستان روس سے تیل حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا دورہ روس سے تیل حاصل کرنے کے معاملے میں تیزی آئے گی۔ دوسری طرف افغانستان میں شدید سردی کے باعث رواں ماہ 160سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور موسم کی شدت نے معاشی مسائل کا سامنا کرنے والی آبادی کو درپیش مشکلات کو مزید سنگین کردیا ہے۔افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ترجمان شفیع اللہ رحیمی کے مطابق 10 جنوری کے بعد سرد موسم کی وجہ سے مجموعی طور پر 162 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ جمعرات کو حکام کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتے سردی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 84 تھی جن میں حالیہ بیان کے مطابق ایک ہفتے کے دوران 78 اموات کا اضافہ ہوا ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغانستان کو گزشتہ 15 برسوں میں سب سے شدید سرد موسم کا سامنا ہے۔ سردی کی اس شدید لہر میں افغانستان کے کئی علاقوں میں درجہ حرارت منفی 34 تک گر گیا ہے۔سرد موسم میں آنیو الی اس شدت نے افغانستان کو درپیش معاشی بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔ معاشی مسائل کی وجہ سے سردی سے بچاو کے لیے ایندھن اور حرارت حاصل کرنے کے دیگر ذرائع متاثرہ علاقوں کے مکینوں کی پہنچ سے دور ہیں۔کابل کے مغربی علاقوں میں برف سے ڈھکے علاقوں میں بچے کچرے کے ڈھیر سے پلاسٹک کی اشیا تلاش کرتے نظر آتے ہیں تاکہ انہیں جلا کر سردی سے بچا جاسکے۔ کیوں کہ غربت کے باعث کئی خاندان سردی میں جلانے کے لیے لکڑیاں یا کوئلہ بھی نہیں خرید سکتے ہیں۔اگست 2021میں افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے ملکی معیشت میں آں ے والی ابتری کے باعث لاکھوں افراد غربت اور بھوک کا شکار ہیں۔