جی ٹوئنٹی: منافقت (دوغلاپن)

معاشی طور پر مستحکم ممالک کی تنظیم ’جی ٹوئنٹی (G20)‘ کے زیرانتظام ’سیاحت سے متعلق آئندہ اجلاس (ورکنگ گروپ میٹنگ)‘ کے لئے مقبوضہ کشمیر (بھارت) کا انتخاب متنازعہ فیصلہ ہے۔ یہ اجلاس بیس سے بائیس مئی کے درمیان ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ بھارت نے ’پانچ اگست دوہزاراُنیس‘ کے روز مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کیا اور اب وہ اپنے اِس غیر قانونی اقدام کو دنیا کی نظروں میں جائز بنانے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں اجلاس کرنے جا رہا ہے۔ دوسری طرف دنیا بھارت کے اُس کردار کو بخوبی جانتی ہے جو ’مقبوضہ کشمیر‘ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مجموعہ ہے اور یہ امر اپنی جگہ لائق تشویش ہے کہ بھارت دنیا سے توقع بھی رکھتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرے۔ جی ٹوئنٹی تنظیم کے 19 رکن ممالک ہیں۔ اِن میں ارجنٹینا‘ آسٹریلیا‘ برازیل‘ کینیڈا‘ چین‘ فرانس‘ جرمنی‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ اٹلی جاپان‘ کوریا‘ میکسیکو‘ روس‘ سعودی عرب‘ جنوبی افریقہ‘ ترکیہ‘ برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ غیر ملکی مندوبین کو کشمیر کی سیر و سیاحت بھی کروائی جائے گی تاکہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں یہ تاثر دیا جا سکے کہ وہاں حالات معمول پر ہیں۔ بھارت نے لداخ کے رہنے والوں کے حقوق بھی غصب کر رکھے ہیں۔ لداخ کے رہنے والوں کا رہن سہن قبائلی اقدار و اطوار پر مشتمل ہے جن کا مطالبہ ہے کہ اُنہیں اپنے وسائل بشمول زمین‘ روزگار‘ ماحولیات اور ثقافتی شناخت کا آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ سال دوہزاراکیس میں لداخ کے رہنے والوں کی نمائندہ تنظیم ’کارگل ڈیموکریٹک الائنس‘ کی جانب سے ہڑتال کی گئی اور اِس موقع پر لیہہ شہر‘ جہاں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے‘ اور وہاں مسلمان بھی آبادی ہیں جنہوں نے بدھ مت کے ساتھ کارگل شہر میں ہوئے احتجاج میں حصہ لیا اور مطالبہ کیا کہ اُنہیں ریاست کا درجہ جائے جائے اور اُن کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز مظالم کے علاؤہ ’جی ٹوئنٹی‘ کے بہت سے طاقتور رکن ممالک جن کے پاس بھاری فوجی اسلحہ موجود ہے‘ عراق‘ افغانستان‘ یمن‘ یوکرین وغیرہ میں اپنی جنگوں کی وجہ سے ماحولیاتی تباہی کے لئے ذمہ دار ہیں‘ جو بین الاقوامی انسانی قانون کی رو سے جرم ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظورشدہ قرارداد کے مطابق بھی جرم ہے جو ’مسلح تنازعات کے قدرتی ماحول پر اثرات اور ماحولیات کے تحفظ‘ سے متعلق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہلال احمر (ریڈ کراس) نامی بین الاقوامی کمیٹی نے بھی ’مسلح تنازعات سے ماحول کو لاحق خطرات اور ماحولیات کے تحفظ سے متعلق عسکری قواعد (مینوئلز) اور ہدایات‘ اور ’مسلح تنازعات میں قدرتی ماحول کے تحفظ سے متعلق رہنما اصول‘ وضع کئے ہیں اور یہ سال دوہزاربیس سے دنیا پر لاگو ہیں۔ جی ٹوئنٹی اجلاس میں بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کے طور پر نہیں پیش کیا جائے گا حالانکہ بھارت کی غیر سنجیدہ جوہری پالیسی ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے اِس کے غیر سنجیدہ رویئے کا ثبوت ہے۔ سال دوہزاراُنیس میں ایک بھارتی طیارے کو مار گرایا گیا اور گرفتار پائلٹ پاکستانی فضائی حدود میں گرفتار کر کے زندہ بھارت کو واپس کیا گیا جبکہ دوہزاربائیس میں بھارت نے کہا کہ اُس کا ایک میزائل حادثاتی طور پر داغا کیا گیا جو پاکستان کی حدود میں آ کر گرا اور خوش قسمتی یہ رہی کہ اِس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ اور اِس جیسی دیگر مثالیں ’بھارت کی لاپرواہی‘ کو عیاں کرتی ہیں جو کسی جوہری طاقت کے شایان شان نہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اِس سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ سال دوہزاربارہ میں بھارت میں جوہری تحفظ سے متعلق ایک پارلیمانی رپورٹ میں لازمی بین الاقوامی اصولوں کی سنگین خامیوں اور ناکامیوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ کلپکم اٹامک ری پروسیسنگ پلانٹ واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے وہاں کام کاج کرنے والوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوئے اور اسے ’سنگین خطرہ‘ قرار دیا گیا۔ تاراپور اٹامک پاور سٹیشن کی بھی یہی صورتحال ہے جس سے متعلق ایک رپورٹ میں ملازمین اور آس پاس کے دیہات میں رہنے والے تابکاری سے متاثر ہیں اور اُن میں کینسر‘ گوئٹر اور بانجھ پن وغیرہ کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ سال دوہزارسولہ میں گجرات کے کاکراپار میں واقع نیوکلیئر پلانٹ میں پانی کے بڑے اخراج کے بعد ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی تھی۔ سال دوہزارسترہ میں بھارتی ریاست اتر پردیش میں کوئلے سے چلنے والے ایک پاور پلانٹ میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم اُنتیس افراد ہلاک اور ایک سو کے قریب زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (COP26) نے سال دوہزاراکیس میں صنعتی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ’مرحلہ وار ختم کریں‘ لیکن اِس مطالبے کی بھارت سمیت زیادہ تر جی ٹوئنٹی کے رکن نے مخالفت کی۔ جو اِس تنظیم کے ’نیو لبرل ازم فلسفے کا عکاس ہے اور یہ رویہ ماحولیات کے لئے نقصان کا باعث ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین کی پیداواری صلاحیت ہر سال کم ہو رہی ہے اور دنیا میں فصل کی کٹائی کے صرف ساٹھ سال باقی رہ گئے ہیں کیونکہ کیمیائی کھادوں اور آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے مٹی کی زرخیزی کم ہو رہی ہے لیکن یہ مسائل نہ تو ذرائع ابلاغ (میڈیا) اُجاگر کرتا ہے اور نہ ہی ’جی ٹوئنٹی‘ کے رکن ممالک تنظیمی سطح پر اور اپنی انفرادی حیثیت میں اِن مسائل کے حل پر توجہ دے رہے ہیں۔ مارچ دوہزارتیئس میں‘ بین الاقوامی ماحولیاتی قانون پر عمل درآمد کا جائزہ لیاگیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جنوبی بحرالکاہل کے ایک جزیرہ ملک وانواتو کی طرف سے پیش کردہ قرارداد منظور کی جس میں موسمیاتی نظام اور آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثرہ افراد کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اِس قرارداد کے ذریعے صنعتی ترقی کرنے والے ممالک جن کی وجہ سے کرہئ ارض کے ماحولیاتی توازن خراب ہوا ہے اُن ممالک کی یہ قانونی ذمہ داری قرار دی گئی کہ وہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی رائے حاصل کریں۔ آب و ہوا سے متاثرہ برادریوں کے لئے معاوضہ‘ ماحولیاتی اثرات کا تخمینہ اور صنعتی ممالک (جی ٹوئنٹی)‘ آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او جیسے نیو لبرل اداروں کے قواعد (ریگولیشنز) جیسے موضوعات سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں اور عالمی ماحولیاتی قوانین کی بہرصورت پاسداری اور نیو لبرل ازم (سوچ) کے درمیان فاصلے کم کرنے کی فوری و اشد ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ ایم شاہ رخ شاہ نواز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)