ماحولیاتی اقدامات کا جائزہ

اس تحریر میں پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کے منظرنامے اور اِس سے متعلق منصوبہ بندی و اقدامات (ایجنڈے) کے وسیع تناظر کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کسی بھی ملک میں آب و ہوا سے متعلق حکومتی اقدامات کے لئے پانچ ضروری شرائط ہوتی ہیں۔ ایک قومی قیادت کی جانب سے موسمیاتی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی برادری کی کوششوں کی حمایت اور تمام سٹیک ہولڈرز کے تعاون سے نافذ کی جانے والی پالیسیوں کے ذریعے تیزی سے غیر مستحکم آب و ہوا کے منفی اثرات سے ہم آہنگ ہونے کے لئے اہم معاشی شعبوں‘ شہریوں اور ماحولیاتی نظام کی تقویت کے لئے سیاسی عزم۔ دوسرا موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجوں اور ردعمل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے علاقائی اور عالمی مباحثوں میں فعال شرکت۔ تیسرا‘ عالمی ایجنڈے کے حصول کے ساتھ قومی معیشت‘ انسانی تحفظ اور ماحولیات پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھالنے کے لئے پالیسیوں اور اقدامات کے منصوبوں کی ترقی و نفاذ۔ چہارم موسمیاتی تبدیلی کی گورننس جس میں قومی اور ذیلی قومی سطح پر کام کرنے والے ادارے شامل ہیں جو تشخیص‘ پالیسی سازی اور کاروائی کے ساتھ حاصل یا ضائع ہونے والی پیش رفت کا وقتا فوقتا جائزہ لیں‘ نگرانی کریں اور قومی وسائل کو اِس سلسلے میں متحرک کریں۔ پانچواں یہ کہ وسائل (تکنیکی‘ مالی اور انسانی) کو متحرک کیا جائے اور اِن سے بہتر استفادہ کیا جائے۔  آئیے دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا معیارات کے حوالے سے پاکستان نے اب تک کیا حاصل کیا ہے۔ اعلی سطحی سیاسی عزم: پاکستان کی ماحولیاتی پالیسی دوہزاربائیس سے دوہزارچھبیس موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے خاطرخواہ حجم نہیں رکھتی۔ جب ہم ”آب و ہوا سے متعلق پاکستان کی قومی پالیسی“ کو دیکھتے ہیں تو اِس میں آفات سے نمٹنا ترجیح ہونا چاہئے اور اس کا بنیادی مقصد پانی‘ خوراک‘ صحت اور توانائی کا تحفظ بھی ہونا چاہئے۔ حالیہ چند برسوں میں ہمارے قومی رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے بلائے گئے سالانہ موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ اجلاسوں میں شرکت کی اور پیرس معاہدے میں درج عالمی موسمیاتی اہداف کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا ہے اگرچہ پاکستان کے ساحلی علاقوں‘ شہروں اور دیہات میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا ضروری ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں شاذونادر ہی بات کی جاتی ہے تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جامع پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ دوسری طرف صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسیوں کو تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے مالی اور انسانی صلاحیتوں کی کمی ہے۔وفاقی اور صوبائی پالیسیاں اور حکمت عملیاں: سال دوہزاربارہ میں جاری ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی اور سال دوہزاربائیس میں جاری ہونے والے اس کے نظرثانی شدہ مسودے میں تخفیف‘ موافقت اور صلاحیت کی ترقی سے متعلق متعدد پالیسی اقدامات شامل ہیں۔ سال دوہزارتیرہ میں وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ’موسمیاتی تبدیلیوں کے نفاذ کے لئے فریم ورک‘ تیار کیا جس میں پانی اور توانائی کے اقدامات کے نفاذ کو ترجیح دی گئی۔ پالیسیوں پر عمل کرنا ناکافی رہا ہے۔ آب و ہوا کے سب سے قابل ذکر منصوبے وہ ہیں جو عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے تیار کئے جاتے ہیں اور اِن کی مالی اعانت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کی ضروریات سے متعلق متعدد شعبہ جاتی پالیسیاں تیار کی ہیں‘ جن میں قومی آبی پالیسی (2018ء) متبادل اور قابل تجدید توانائی ترقیاتی پالیسی (2020ء) اور نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی (2020ء) شامل ہیں۔ قومی آبی پالیسی میں مربوط آبی وسائل کے انتظام کے لئے ایک درجن یا اس سے زیادہ بڑے اقدامات شامل ہیں۔ انرجی پالیسی کا مقصد آٹھ ہزار تک قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنا ہے جو ملک میں پیدا ہونے والی کل توانائی کا بیس سے تیس فیصد ہے۔ اِسی طرح الیکٹرک وہیکل پالیسی میں اہداف اور ترغیبات شامل ہیں جن کا مقصد سال دوہزارتیس تک تمام مسافر گاڑیوں اور ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں کی فروخت میں اضافہ کرنا ہے۔ پاکستان نے سال دوہزارسولہ میں اقوام متحدہ کے سی سی سیکریٹریٹ اور دوہزاراکیس میں اس کا نظر ثانی شدہ ورژن بھی جمع کرایا ہے۔ اِن اقدامات میں دس ارب درخت لگانا‘ متوقع گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پچاس فیصد کمی (بین الاقوامی گرانٹ فنانس سے مشروط) اور شمسی‘ ہوا اور بائیو ماس جیسے قابل تجدید ذرائع کے ذریعے تنصیب شدہ صلاحیت کو تیس فیصد تک بڑھانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ہائیڈرو پاور منصوبوں میں زیادہ سرمایہ کاری کے ساتھ صاف توانائی میں پاکستان کی حصہ داری بڑھانا بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ نیشنل پارکس‘ فطرت پر مبنی ماحولیاتی نظام کی بحالی کے متعدد منصوبے اور زیر زمین پانی کے ذخائر میں اضافے کے لئے بھی اقدامات بھی اِسی حکمت عملی میں شامل ہیں۔ جولائی دوہزاربائیس میں حکومت نے اقوام متحدہ کے ساتھ قریبی تعاون سے ماحولیاتی نظام کی بحالی اور آب و ہوا سے مطابقت کے لئے ’لیونگ انڈس‘ نامی پروگرام تیار کیا جس میں تقریبا دو درجن منصوبے اور اقدامات شامل ہیں جن کا مقصد ایک پائیدار اور آب و ہوا کے لچک دار انڈس بیسن کی ترقی جیسی صاف توانائی کی سکیمیں‘ زیر زمین پانی کے ذخائر کی بہتری‘ ماحولیاتی سیاحت‘ حیاتیاتی تنوع کا تحفظ اور پلاسٹک آلودگی کا خاتمہ کرنا ہے۔ لیونگ انڈس پروگرام تمام صوبوں کا احاطہ کرے گا۔موسمیاتی تبدیلی کی گورننس (ادارہ جاتی انتظامات): سال دوہزارسترہ میں پارلیمنٹ نے نیشنل کلائمیٹ چینج ایکٹ نامی ایک قانون منظور کیا جو تحفظ ماحول کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ ایکٹ آب و ہوا کی تبدیلی کے تمام پہلوؤں سے نمٹنے کے لئے مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ ہے۔ اِس قانون نیشنل کلائمیٹ چینج کونسل (این سی) کی نگرانی وزیر اعظم یا ان کے نامزد کردہ وزیر کرتے ہیں۔ کونسل کو آب و ہوا سے متعلق پالیسیوں کی منظوری دینے اور ان کے نفاذ کو مربوط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت نیشنل کلائمیٹ چینج اتھارٹی (این سی سی اے) قائم کی گئی ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسیوں اُور لائحہ عمل کا جائزہ لے گی اور اِس کے لئے درکار مالی وسائل (فنڈز) کا بھی انتظام کرے گی۔ موجودہ حکومت نے نیشنل کلائمیٹ چینج کونسل قائم کی ہے جس کا پہلا اجلاس وزیراعظم کی زیر صدارت ہوا ہے۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ  ایکٹ  کے تمام دفعات کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ ایک مضبوط انتظامی نظام کی عدم موجودگی میں آب و ہوا کی تبدیلی کو روکا نہیں جا سکتا۔ امریکہ‘ چین‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ جمہوریہ کوریا اور جاپان جیسے متعدد دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق منصوبوں کی حمایت پر آمادگی کی بدولت وزارت موسمیاتی تبدیلی کے لئے آسان ہو گیا کہ درپیش چیلنجوں کو مزید پیچیدہ بنانے سے روکے تاہم اِس کے لئے زیادہ فعال  کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شفقت کاکاخیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)