نئی کرنسی ’برکس‘

عالمی طاقت کے طور پر ’امریکہ کا گھٹتا ہوا اثر و رسوخ‘ اور چین و روس کے اتحاد سے تبدیل ہوتی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئی کرنسی (مالیاتی نظام) کی تخلیق ہوئی ہے جس پر عمل درآمد ہو رہا ہے اِسے ’برکس (BRICS)‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ امریکی ڈالر کی حاکمیت و اہمیت کم کرنے کے لئے چین کی کوشش ہے۔ ’برکس‘ پانچ ممالک (برازیل‘ روس‘ بھارت‘ چین اور جنوبی افریقہ) کے درمیان اِن ممالک کی مقامی کرنسیوں میں تجارتی لین دین سے متعلق معاہدہ ہے جو ایک تنظیمی شکل میں ’16 جون 2009ء‘ کو تخلیق کیا گیا تھا۔ امریکہ جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی اور مالی استحکام کا مرکز بنا ہوا ہے تو وہ اپنے ڈالر کی برتری کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ اور اُبھرتی ہوئی دیگر نئی معیشتوں‘ بالخصوص چین اور روس میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے امریکہ کی یہ حیثیت زوال پذیر ہے۔ اب تک کی امریکی خارجہ پالیسی مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو ہوادینے پر مرکوز تھی۔ امریکہ نے اپنے اربوں ڈالر مالیت کے فوجی ہتھیار اپنی ہی مقرر کردہ قیمتوں پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کو فروخت کئے اور خوب منافع کمایا۔ ذہن نشین رہے کہ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ فوجی سازوسامان فراہم کرنے والا ملک ہے اور امریکہ کے بعد زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک میں برطانیہ دوسرے اور فرانس تیسرے نمبر پر آتا ہے لیکن شاید یہ بات  مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سمجھ میں آ گئی ہے کہ اُن کے  باہمی تنازعات سے سب کا نقصان ہی ہورہا ہے۔مگر ابمشرق وسطیٰ کی صورت حال تبدیل دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم دنیا کا اتحاد خوش آئند ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو سنبھلنے اور کوئی نئی چال چلنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا کہ وہ پھر سے کوئی تنازع یا حملہ کر کے غلط فہمیاں پیدا کرسکے۔امریکہ کی معیشت اور اِس کا فروغ بنیادی طور پر جنگ پر ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سال دوہزارپندرہ سے دوہزاربیس کے درمیان امریکہ نے  ریکارڈ ہتھیار فروخت کئے۔امریکہ کے سابق صدر ’براک اوباما‘ یمن میں سعودی جنگ کے خاتمے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ان کے جانشین سابق امریکی صدر ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ نے اِس کی مخالفت کی اور جہاں ٹرمپ جیسے رہنما ہوں وہاں عالمی تنازعات حل نہیں ہوتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یوکرین پر حملہ کرنے کی پاداش میں امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک نے روس کو بینکاری کے ’سوئفٹ‘ نامی نظام و سہولت سے الگ کر دیا ہے اور روس پر عالمی بینکاری نظام استعمال کے لئے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ سپر پاور کے زیر انتظام سوسائٹی فار ورلڈ وائیڈ انٹر بینک فنانشل ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کے تحت روس نے چین سے اُس کی کرنسی (یوآن) خریدوفروخت کا فیصلہ کیا۔ روس چین کو اپنا تیل اور گیس برآمد کرے گا اِسی طرح سعودی عرب چین کو اپنا تیل یوآن میں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کچھ ممالک نے خود کو ڈالر کی غلامی سے آزاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِن میں برازیل‘ روس“ چین اور جنوبی افریقہ نئی کرنسی (برکس) میں لین دین کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق‘ دو درجن سے زیادہ ممالک ’برکس‘ نامی کرنسی (مالیاتی نظام) سے جڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر وہ امریکی ڈالر کی بالادستی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ چین اور روس کی سربراہی میں ایک علاقائی اقتصادی بلاک تشکیل دینے پر غور کیا جائے اور خطے کے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اس کا حصہ بننے کی ترغیب و دعوت دی جائے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ چین معاشی طاقت بن چکا ہے اور امریکہ سکڑتی ہوئی سلطنت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں  بنیادی فرق ہے۔ چین دیگر ممالک میں امن و ترقی کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکہ ہتھیار بنانے والوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے جنگ‘ موت اور تباہی مسلط کرتا ہے۔ ایک طاقتور لابی اسلحہ سازوں کی نمائندگی کرتی ہے جو واضح طور پر کچھ امریکی سینیٹرز اور کانگریس اراکین کی انتخابی مہمات میں حصہ لیتے ہیں۔ انتخابات میں مالی تعاون کرنے جیسے احسان واپس کرنے کے لئے یہ لوگ منتخب ہونے پر کمزور ممالک کے خلاف جنگیں شروع کر دیتے ہیں اُور اِن کے وسائل لوٹنے کی پالیسیاں بناتے ہیں جیسا کہ افغانستان‘ عراق و لیبیا میں دیکھا گیا۔ اس صورت میں ہمارے اولین قومی مفاد میں ہے کہ ہم چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کی ترقی میں مدد کریں‘ جسے خطے کے لئے ’گیم چینجر‘ قرار دیا گیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق چین مشرق وسطیٰ سے بحیرہ جنوبی چین کے راستے تقریبا ًبارہ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے تیل اور گیس درآمد کرتا ہے۔ اس کا موازنہ اسی مواد کو گوادر سے چین کے صوبہ سنکیانگ کی سرحد تک لے جانے سے کریں تو یہ فاصلہ صرف تین ہزار کلومیٹر رہ جاتا ہے۔ نئے مالیاتی نظم و نسق کے تحت بہت سے ممالک اپنی باہمی تجارت کے لئے ’برکس‘ پر انحصار کر رہے ہیں یا اِس سے جڑنے کے لئے بے چین ہیں۔ عالمی تجارت میں اِس نئی کرنسی کا مستقبل روشن اور منافع بخش ہے اور یہ امریکہ کی حاکمیت (کنٹرول) اور اِس کے استحصال سے آزادی کی راہ بھی دکھاتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: افتخار اے خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)