پاک امریکہ تعلقات: سردمہری‘ تجاہل عارفانہ

پاکستان کو درپیش مالی مشکلات کے بارے میں امریکہ کو تشویش نہیں حالانکہ پاکستان کئی دہائیوں سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ’آئی ایم ایف‘ کی متعدد شرائط پوری کی ہیں‘ لیکن اسے ابھی تک قرض کی انتہائی ضروری قسط موصول نہیں ہوئی جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوسکتا ہے اور پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی آسکتی ہے۔ پاکستان کو اگلے ماہ (جون دوہزارتیئس) میں ’تین ارب ڈالر‘ سے زائد قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جس سے اس کے پاس زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر مزید کم ہونے کا امکان ہے۔ عالمی مالیاتی اِدارہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ امداد میں تاخیر مالیاتی اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے ہو رہی ہے تاہم پاکستان کا مؤقف ہے کہ تاخیر کا سبب ’سیاسی نوعیت‘ کے اقدامات ہیں۔ پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مغرب ایک ایسے ملک میں چین کے اثر و رسوخ کو کم ہوتا دیکھنا چاہتا ہے جو سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران مغربی اتحادی رہا چونکہ پاکستان کی مالی صورتحال مخدوش ہے اِس لئے امریکہ اِس کا فائدہ اُٹھا رہا ہے اور اسلام آباد پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ چین سے تعلقات میں فاصلہ رکھے جبکہ موجودہ معاشی صورتحال میں ایسا کرنا پاکستان کے لئے آسان نہیں ہے۔ فی الوقت چین نہ صرف پاکستان کے بڑے ’قرض دہندگان‘ میں شامل ہے بلکہ یہ ایک سٹریٹجک اتحادی بھی ہے جو بحران کی صورت میں پاکستان کی مدد کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ ہر آزمائش میں چین نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور چین کے مقابلے امریکہ سے اُمید نہیں لگائی جا سکتی جو بظاہر پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتا ہے۔ یہاں تک کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران‘ جب پاکستان امریکی پالیسیوں کا خمیازہ بھگتنے والی فرنٹ لائن ریاست تھی‘ اُس وقت کی امریکی انتظامیہ نے بھارت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدے کی پیش کش کرکے خوش کیا تھا۔ امریکی کمپنیوں نے بھارت سے متعدد معاہدے کر رکھے ہیں جن کا مقصد دونوں ممالک کے تجارتی اور مینوفیکچرنگ اداروں کے درمیان مشترکہ منصوبوں کو فروغ دینا ہے۔ واشنگٹن نے سٹریٹجک معاملات میں بھی بھارت کو ترجیح دی ہے اور اسے بظاہر چین کے خلاف چار ملکی اتحاد میں شامل کیا ہے۔
پاکستان کے پالیسی ساز امریکہ کے اِس رویئے سے حیران ہیں۔ سول جوہری معاہدہ خاص طور پر اسلام آباد کو ’پسند‘ نہیں آیا کیونکہ یہاں کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اس سے خطے میں موجود طاقت کا توازن بڑی حد تک خراب ہوسکتا ہے۔ بھارت میں ’زعفرانی دہشت گردی (ہندواتو)‘ کو اب بھی نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے  ساتھ عیسائی‘ دلت اور دیگر اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارت میں مختلف پسماندہ گروہوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اِس بُرے (امتیازی) سلوک کو اُجاگر کرنے کے حوالے سے امریکی رپورٹس بھی امتیازی نظر آتی ہیں۔ اس سے اسلام آباد میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ امریکہ قابل اعتماد اتحادی نہیں‘ جس کی وجہ سے پاکستانی سیاست دانوں کو اپنی توجہ مشرق کی طرف مبذول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسلام آباد نے ماسکو کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور بیجنگ کے مزید قریب ہونے کا فیصلہ کیا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ علاقائی ہم آہنگی کو فروغ دیا جانا چاہئے۔ پاکستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا اہم جزو بن گیا ہے جس میں ملک میں تیس ارب ڈالر سے زائد کی چینی سرمایہ کاری دیکھی گئی۔ مشکل حالات کے باوجود بیجنگ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت زیادہ تر منصوبوں کو مکمل کیا۔ چین کے ساتھ ’ریل روٹ لنک‘ بھی تجویز کیا گیا ہے جو دونوں روایتی اتحادیوں کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرسکتا ہے۔ خیال ہے کہ اس منصوبے کی لاگت پچاس ارب ڈالر سے زائد ہے اور یہ بلوچستان کو مغربی چین سے منسلک کرے گا۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا ہے تو یہ چینی کمپنیوں کو سمندر تک رسائی کا ایک متبادل راستہ فراہم کرے گا‘ کیونکہ امریکہ چین کو حصار میں لینا چاہتا ہے جبکہ پاکستان کے راستے وہ اِس حصار کو بڑی حد تک توڑ سکتا ہے۔ چین میں 1949ء کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد امریکی پالیسی ساز اس حقیقت پر مایوس ہوئے کہ وہ چین پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اگر امریکہ نے اسلام آباد پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی تو وہ خطے میں اپنے قریبی اتحادیوں میں سے ایک کو کھو سکتا ہے جہاں اس کے پہلے سے ہی بہت کم دوست ہیں۔ امریکی پالیسی ساز آج کی کثیر قطبی دنیا کی تلخ حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں جہاں چھوٹی ریاستوں پر فوجی طاقت یا بے پناہ مالی اثر و رسوخ دکھا کر کسی بھی مطالبے کو قبول کرنے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔ بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بعض اوقات چھوٹی ریاستیں بڑی طاقتوں سے ڈکٹیشن نہیں لیتیں۔ اس کے بجائے وہ اپنی پالیسیوں کے ساتھ آتے ہیں جو ان کے قومی مفادات کی عکاسی کرتی ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران‘ یہ مغربی‘ وسطی اور مشرقی یورپ کی چھوٹی ریاستیں تھیں جنہوں نے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کو مختلف طاقتوں کے ساتھ جوڑ لیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے وسطی ایشیا اور خطے کی کچھ دیگر ریاستیں بھی قومی مفادات کے تحفظ کے اس رجحان کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کوئی ایسا قدم اٹھا سکتا ہے جو اس کے قومی مفادات کے خلاف ہے تو وہ غلطی کر رہا ہے۔ بے شمار معاشی مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود‘ پاکستان کے پاس اب بھی آپشنز موجود ہیں جبکہ امریکہ کے پاس آپشنز کی کمی ہے۔ پاکستان علاقائی تعاون کا حصہ بن کر روس سے سستے داموں تیل اور گیس جبکہ چین سے سرمایہ کاری حاصل کر سکتا ہے۔ یہ علاقائی رابطے بے حد فائدہ مند اور پائیدار ہیں‘ جس سے پاکستان کو ٹرانزٹ فیس کی شکل میں آمدنی بھی حاصل ہوگی۔ نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان قریبی قربت کے پیش نظردونوں حریف بھارت کی دہشت گردی اور خطے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے تسلط پسند بھارت کے مقابلے کے لئے ’مشترکہ حکمت عملی‘ تیار کر سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے اِس خطے کو نظر انداز کر رہا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ خطے میں اِس کا کوئی اتحادی نہیں ہے۔ روس اور چین کو امریکہ کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ واشنگٹن کے اقتدار کی راہداریوں میں ایرانی اثر و رسوخ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستیں امریکہ کے ساتھ لڑائی نہ کرنا چاہیں لیکن وہ روس کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں اور ماسکو کے زیر اثر رہنے کو ترجیح دیں گی۔ دوسری طرف افغان طالبان جس ملک سے بھی مل سکتے ہیں وہاں سے مراعات حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف ماسکو کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ افغانستان کے وسطی اور دیگر حصوں میں موجود معدنی دولت نکالنے کے لئے چینی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔  ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد بیجنگ‘ ماسکو اور واشنگٹن کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ وہ امریکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی عالمی یا علاقائی طاقت کے مفادات کے خلاف بھی نہیں جائے گا۔ وہ وہی کر رہا ہے جو کوئی بھی قومی ریاست کرنا چاہتی ہے یعنی اپنے قومی مفادات کا تحفظ اور عالمی اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنا۔ اگر مغرب یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو چین مخالف پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے تو یہ ’غلط فہمی‘ ہے۔ کچھ مواقع ایسے بھی آئے جب پاکستان نے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ سرد جنگ کے دوران بھی اس نے امریکہ کے دباؤ کے باوجود بیجنگ کے ساتھ اچھے تعلقات کے علاوہ اپنے سٹریٹجک اثاثوں پر کام جاری رکھا۔ اس سے امریکہ کو چین کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے میں مدد ملی لہٰذا ایسے ملک کو الگ تھلگ کرنا اور اس پر غیر معقول دباؤ ڈالنا امریکہ کے مفادات کے خلاف ہے جسے آنے والے برسوں میں خطے میں اتحادی تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ واشنگٹن میں پالیسی سازوں (امریکہ) کو‘ اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ کثیر قطبی دنیا میں پاکستان کو نظر انداز کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)