امریکہ: معاشی قسمت کا فیصلہ 

ایک ایسے وقت میں جبکہ امریکہ کے صدر ’جو بائیڈن‘ ایوان نمائندگان کے سپیکر ’کیون میک کارتھی‘ اور دیگر بااثر ری پبلکنز رہنماؤں کے ساتھ قرضوں کی حد کے اہم معاملے پر دوبارہ بات چیت کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ موجودہ اور مستقبل قریب میں متوقع چیلنجوں سے نمٹنے کا کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جا سکے۔ آئینی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ اِس معاملے پر کوئی سمجھوتہ کرنے میں ناکام رہے تو اِس کے ممکنہ طور پر منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ اِن مذاکرات میں تعطل امریکہ کو اپنے قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی کے خطرناک حد تک قریب لے جائے گا۔ اس طرح کے ناقابل تصور منظر نامے کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے‘ جو دنیا بھر کی مالیاتی مارکیٹوں میں پھیل جائیں گے اور اِس طرح عالمی معاشی نظام کے نازک توازن کو متاثر کرنے کا باعث بنیں گے۔ کانگریس میں ہونے والے پیچیدہ مذاکرات امریکہ اور دنیا کے لئے سنگین مضمرات رکھتے ہیں کیونکہ اِن کے نتائج بنیادی طور پر اِس بات کا تعین کریں گے کہ آیا امریکہ اپنی مالیاتی ذمہ داری کی راہ پر گامزن ہے یا نہیں۔ صدر بائیڈن کی قیادت اور میک کارتھی اور کانگریس کے دیگر رہنماؤں اِس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ممکنہ خطرے سے بچا جا سکتا ہے۔ دنیا کی نظریں اس اہم معاملے پر جمی ہوئی ہیں اور اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکامی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ نقصانات سے آگاہ ہیں۔ امریکہ کے فیصلہ ساز سیاسی طور پر تقسیم ہیں لیکن اگر وہ اِس سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر کسی فیصلے پر پہنچتے ہیں تو اِس سے نہ صرف امریکہ کی معاشی قسمت کا تعین کرے گی بلکہ عالمی سطح پر اس کی حیثیت کا بھی تعین کرے گی۔ دنیا سانس روک کر نتائج کا انتظار کر رہی ہے اور ایک ایسے حل کے لئے پُرامید ہے جو مالی بحران سے بچ سکے اور امریکہ کے جمہوری اداروں کی طاقت اور لچک میں اضافہ کرے۔ اگر امریکہ اپنے قرضوں کی ادائیگی نہیں کر پاتا یعنی ڈیفالٹ ہو جاتا ہے تو اس سے عالمی مالیاتی منظر نامے میں امریکی ڈالر کی بالادستی نمایاں طور پر کم ہوجائے گی اور بین الاقوامی معاملات کو تشکیل دینے کی امریکی صلاحیت کمزور ہو گی‘ جس سے واشنگٹن کی مشکلات میں اضافہ ہوا گا۔ توجہ طلب ہے کہ امریکہ میں بینکاری بحران اور قرضوں کی حد کے بارے میں اختلاف اور معاشی سست روی دیکھی جا رہی  ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے جو ڈالر کی طاقت سے فائدہ اٹھاتی ہے‘ امریکہ کو درپیش معاشی مسائل کے دیگر ممالک پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کیا امریکی قرضوں کی عدم ادائیگی ’مالیاتی ایٹم بم‘ جیسے خطرے کا باعث بن سکتا ہے؟ امریکہ میں گزشتہ چند برس کے دوران غیر معمولی رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں قرضوں کی حد کے معاملے میں دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مؤقف سے اختلاف رکھتی ہیں۔ یہ اختلاف جو کبھی رسمی تھا لیکن اب بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے کیونکہ اس اہم معاملے پر دو طرفہ اتفاق رائے ہر گزرتے سال کے ساتھ تیزی سے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔قرضوں کی حد‘ جو کبھی قانون سازی کے لئے معمول کا طریقہ کار ہوا کرتی تھی‘ اب جماعتی تنازعات اور نظریاتی تصادم کے لئے میدان جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ دن گزر گئے جب قرضوں کی حد میں اضافے کو حکومت کے مسلسل کام کاج اور اس کی مالی ذمہ داریوں کی تکمیل یقینی بنانے کے لئے معمول کے اقدام کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن اب اس کی بجائے‘ یہ تنازعہ مستقل بن گیا ہے‘ جو کیپیٹل ہل میں پھیلی ہوئی وسیع تر سیاسی تقسیم کی علامت ہے۔ یادش بخیر سال 2011ء میں جب امریکہ کو آخری بار ڈیفالٹ کے دہانے پر دیکھا گیا تب بھی مذاکرات ہوئے اور ڈیڈ لائن سے چند گھنٹے قبل سمجھوتہ طے پا گیا تھا۔ اُس معاہدے میں ایک دہائی تک جاری رہنے والے امریکی حکومت کے اخراجات میں 900 ارب ڈالر کی کٹوتی کی گئی تھی تاہم کسی حل تک پہنچنے میں عارضی تاخیر بھی اہم نتائج کا باعث بنتی ہے۔ سال 2011ء کے تعطل نے امریکہ کے مالیاتی منظر نامے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اس سے امریکی کریڈٹ ریٹنگ میں گراوٹ آئی ہے جس سے سٹاک مارکیٹ میں ہلچل مچ گئی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو جھٹکا لگا۔ اس کے اثرات مالیاتی منڈیوں سے باہر بھی پھیل گئے اور براہ راست متاثرین میں اکثریت امریکیوں کی تھی جنہیں ایک سال کے دوران قرض لینے پر کم از کم ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کے اضافی بوجھ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ قرضوں کی حد پالیسی سازوں کے درمیان گہری تقسیم اور تنازعات کو جنم دے گی! اس کا جواب سیاسی نظریئے‘ مالی ذمہ داری اور حکومتی اخراجات کے بارے میں مختلف نظریات کے پیچیدہ تعلق میں مضمر ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور کانگریس میں ڈیموکریٹس نے رواں سال کے آغاز سے حکومتی قرضے کی حد 31.4 کھرب ڈالر بڑھانے پر زور دیا ہے تاہم ایوان نمائندگان میں معمولی اکثریت رکھنے والے ری پبلکنز پہلے سے منظور شدہ اخراجات کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور مزید ادائیگیوں کی منظوری دینے سے پہلے مستقبل کے لئے اخراجات کی نئی حدود قائم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ قرضوں کی کسی حد کا تعین کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ کی قرض لینے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ قرضوں کی حد بڑھانے سے وفاقی حکومت کو پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرضے حاصل کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ امریکہ کے قرضوں کی موجودہ حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔ جنوری میں اس حد کی خلاف ورزی کی گئی‘ جس کے بعد محکمہ خزانہ نے قرضوں کی ادائیگی سے بچنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کئے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قرضوں کی حد میں اضافے سے متعلق قانون سازی میں ناکامی امریکہ کو دوبارہ ڈیفالٹ کے قریب کر دے گی۔ اگر امریکہ اپنے قرضوں کی ادائیگی میں ناکام رہا تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے اور ممکنہ نتائج میں خزانے کی درجہ بندی میں کمی بھی شامل ہے‘ جس کے نتیجے میں امریکی حکومت کے بانڈز پر اعتماد میں کمی شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکی صارفین‘ کارپوریشنوں اور خود حکومت کے لئے قرض کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ امریکہ کے مالیاتی بحران میں عالمی سرمایہ کار اپنے ڈالر پر مبنی اثاثے فروخت کرنے کا انتخاب کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے زرمبادلہ مارکیٹوں میں ڈالر کی قدر میں کمی ہوسکتی ہے۔ سٹاک مارکیٹوں میں ممکنہ طور پر تیزی سے گراوٹ آئے گی‘ جس سے سرمایہ کاروں اور مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ڈالر کے غلبے کی وجہ سے امریکہ کی معاشی طاقت قائم ہے اور امریکہ اِسی ڈالر کے ذریعے پابندیاں عائد کر کے اپنی کرنسی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اگر سیاسی مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اِس سے امریکہ کے اقتصادی مستقبل پر غیر یقینی کا سایہ پڑے گا۔ موڈیز اینالٹکس کے مطابق امریکہ کے سیاسی فیصلہ سازوں کے درمیان اختلافات کے نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔ سٹاک کی قیمتوں میں قریب پانچواں حصہ کمی آئے گی۔ امریکی معیشت چار فیصد سے زیادہ سکڑ جائے گی اور رواں مالی تعطل کے نتیجے میں ستر لاکھ سے زائد امریکیوں کی ملازمتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عمران خالد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)