پائیدار ترقی: معاشی سفر اور قومی پیداواری صلاحیت 

پاکستان اپنے معاشی سفر میں جس اہم چوراہے پر کھڑا ہے اُس میں دنیا کا مقابلہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اِس سلسلے میں بین الاقوامی تجارت اور مضبوط پیداواری صلاحیت پائیدار ترقی کے کلیدی محرک کے طور پر ابھرکر سامنے آئی ہے۔ ’گلوبل ویلیو چینز (GVCs)‘ بین الاقوامی تجارت میں اہمیت کی حامل ہیں اور پاکستان کو اپنی غیر حقیقی صلاحیتوں اور آنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔گلوبل ویلیو چینز (جی وی سیز) مختلف ممالک میں مختلف فرموں کی طرف سے کی جانے والی سرگرمیوں کا باہم اور ایک مربوط نیٹ ورک ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی نئی ایجاد کے تصور کو کھپت تک لایا جاتا ہے اور یہ پیداوار کے ہر مرحلے بشمول ڈیزائن‘ پیداوار‘ اسمبلی اور تقسیم جیسے شعبوں (مراحل) کا احاطہ کرتی ہیں۔ فی الوقت ’جی وی سی‘ کے ذریعہ ہونے والی عالمی تجارت کی مجموعی مالیت تقریبا ًپندرہ کھرب ڈالر ہے۔ اس غیرمعمولی حجم سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی تجارت کا تقریباً ستر فیصد اِسی سے وابستہ ہے۔ پاکستان جن منفرد فوائد کا حامل ہے اُس میں ’عالمی ویلیو چین ایکو سسٹم‘ ملک کے سٹریٹجک جغرافیائی محل وقوع‘ متحرک افرادی قوت اور ٹیکسٹائل و زراعت‘ مینوفیکچرنگ اور خدمات سمیت مختلف شعبوں پر مشتمل ہے تاہم ناکافی انفراسٹرکچر‘ کمزور اداروں اور ہنرمند کارکنوں کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں ’جی وی سیز‘ پھل پھول نہیں سکیں اور عالمی ویلیو ایڈڈ شعبے میں پاکستان کی حصہ داری ایک فیصد کے بھی نصف کے برابر (0.5فیصد) ہے تو معلوم ہوا کہ ’جی وی سی‘ کے منجملہ فوائد کو بروئے کار لانے کے لئے جامع پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔گلوبل ویلیو چینز کا حصہ بن کر پاکستان اپنی صنعتی پیداواری صلاحیت میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔ ’جی وی سیز‘ کا مطلب صرف بڑی صنعتیں ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ چھوٹے پیمانے پر گھریلو صنعتوں کا بھی مجموعہ ہوتی ہیں اور اِن سے نئی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور اِس سے جدید ٹیکنالوجی کا حصول بھی ممکن ہوتا ہے۔ یہ انضمام جدت طرازی‘ کارکردگی اور مسابقت کو فروغ دیتا ہے‘ جس کے نتیجے میں صنعتوں کی پیداواری صلاحیت میں بہتری آتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ’جی وی سیز‘ کو اگر دس فیصد بھی اپنایا جائے تو اِس سے پیداواری صلاحیت میں تقریباً ایک اعشاریہ سات فیصد اضافہ ہوتا ہے۔عالمی ویلیو چینز میں پاکستانی کمپنیوں کی شمولیت برآمدات میں فروغ کا باعث بنے گی۔ ویلیو چین کے مخصوص مراحل میں مہارت حاصل کرکے‘ کمپنیاں کئی ایک شعبوں پر توجہ مرکوز کرسکتی ہیں جہاں کم اخراجات سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ طویل عرصے سے پاکستان کی معیشت کا سنگ بنیاد رہا ہے جس نے روزگار اور برآمدات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ٹیکسٹائل ویلیو چین میں ضم ہو کر پاکستانی کمپنیاں خام مال کی پیداوار اور روایتی مینوفیکچرنگ سے ایک قدم آگے بڑھ سکتی ہیں۔ ڈیزائن‘ برانڈنگ‘ مارکیٹنگ اور فروخت میں اضافے کے ساتھ مصنوعات کی زیادہ قیمتیں بھی حاصل ہوں گی۔ اِسی طرح پاکستان کے زرعی شعبے میں ویلیو چین انضمام کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ کاشتکاری کی جدید تکنیک اپنا کر‘ فصل کٹائی‘ پروسیسنگ اور پیکیجنگ جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور اگر اِن شعبوں کو خاطرخواہ توجہ دی گئی تو پاکستانی زرعی مصنوعات بین الاقوامی معیار کے معیار پر پورا اتر سکتی ہیں۔ زرعی ویلیو چینز میں انضمام سے نہ صرف پاکستانی زرعی مصنوعات کی برآمدات کو فروغ ملے گا بلکہ اِس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے‘ غذائی تحفظ کی صورتحال بہتر ہو گی اور غربت میں خاطرخواہ کمی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیاں بہتر ہوں گی۔ ٹیکسٹائل اور زراعت کے علاوہ پاکستان کے مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے بھی ویلیو چین کا حصہ بن سکتے ہیں۔ عالمی اداروں کے ساتھ روابط قائم کرکے پاکستانی مینوفیکچررز نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرسکتے ہیں اور مصنوعات کے معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح آئی ٹی‘ سافٹ وئر ڈویلپمنٹ اور بزنس پروسیس آو¿ٹ سورسنگ جیسی خدمات عالمی ویلیو چینز سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں‘ جس سے معاشی ترقی و نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں تاہم اِس کے لئے سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنا ہو گا تاکہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کار راغب ہوں اور مقامی کمپنیوں کو عالمی ویلیو چینز میں حصہ لینے کی ترغیب ملے جس کے لئے قواعد و ضوابط اور کاروبار کرنے میں آسانیاں بھی متعارف کرانا ہوں گی۔ حقائق و شواہد سے متعلق ہوتا ہے جن ممالک نے اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور اپنے ہاں غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا اُنہوں نے سرمایہ کار دوست پالیسیاں وضع کیں۔ اِسی طرح نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنایا گیا اور افرادی قوت کی تربیت و مہارت میں اضافہ کیا گیا۔ نئی ٹیکنالوجیز کی منتقلی میں سہولت بنانا بھی اہم ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ پاکستانی فرموں اور اِن کے بین الاقوامی ہم منصبوں کے درمیان شراکت داری کو فعال طور پر فروغ دے تاکہ تکنیکی معلومات‘ تحقیق اور ترقی جیسے امور پر ٹیکنالوجی کے تبادلے کو آسان و ممکن بنایا جا سکے۔ وقت ہے کہ پاکستان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور بین الاقوامی تجارت و مضبوط پیداواری صلاحیت کے امکانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مربوط عالمی معیشت کا حصہ بن کر خود کو ’خوشحال ملک‘ میں تبدیل کرے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ایم ذیشان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)