اُمید کی کرن

معاشی منظر نامہ نہ صرف سنگین دکھائی دے رہا ہے بلکہ یہ خطرناک حدوں کو بھی چھو رہا ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں ڈیزل کی کھپت میں پچاس فیصد کمی ہوئی ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’پورٹ ٹو اپ کنٹری‘ کمرشل ٹریفک اور ’فارم ٹو مارکیٹ‘ نقل و حمل جیسی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے اور اِسی عرصے میں گاڑیوں کی فروخت بھی کم ہوئی ہے۔ مزید برآں بجلی کی پیداوار میں تیئس فیصد کمی کی وجہ سے معیشت کا پہیہ گویا رک سا گیا ہے۔لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) میں پچیس فیصد گراوٹ غیرمعمولی ہے جو صنعتی پیداوار میں کمی کی نشاندہی کر رہی ہے۔ نتیجتاً کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد اور سیالکوٹ جیسے بڑے صنعتی شہروں میں بے روزگاری کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ غذائی افراط زر (مہنگائی) بڑھتے ہوئے پچاس فیصد تک پہنچ گئی ہے جس سے غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے خدشات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے‘ جو غیر معمولی ہے۔پاکستان کی قومی بیرونی ذمہ داریاں اپنی جگہ موجود ہیں۔ جون کے آخر تک 3.7 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا ہے جبکہ فی الوقت ہمارے پاس 4.2 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں لیکن یہ چیلنجز جون کے بعد بھی برقرار اور اگلے مالی سال تک جاری رہیں گے کیونکہ ہمیں 41.8 ارب ڈالر کی مجموعی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے اور اِس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے متوقع قرض ہے۔پاکستان کی معاشی و اقتصادی صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ گزشتہ سال اپریل تک تحریک انصاف کی حکومت تھی جس نے بجٹ خسارے اور تجارتی خسارے کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی۔ اس کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے اقتدار سنبھالا اور اِس اہم مرحلے پر مشورہ دیا گیا کہ جب پہلے سے کھائی موجود ہو تو مزید کھدائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تجزیہ کاروں کی جانب سے ایسے اقدامات سے گریز کی اہمیت پر زور دیا گیا جو پہلے سے ہی معاشی مشکل صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں۔ ’پی ڈی ایم‘ کی حکومت میں وزارت ِخزانہ کو غیر پیداواری اقدامات جاری رکھنے کی بجائے حالات کا تنقیدی جائزہ لینا چاہئے تھا اور متبادل طریقوں اور حل تلاش کرنے چاہئے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اصل ذمہ دار کون ہے؟ معیشت اور سیاسی استحکام کے درمیان پیچیدہ تعلق طویل عرصے سے قائم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران عمران خان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تشدد‘ افراتفری اور انتشار کو استعمال کرنے سے سیاسی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ نتیجتاً غیر یقینی کی صورتحال‘ عدم تحفظ‘ عدم استحکام‘ اُلجھن اور افراتفری کے بوجھ کے درمیان معیشت مسلسل خراب ہوتی رہی ہے۔ تو پھر اِس صورتحال میں ”اُمید کی کرن“ کہاں تلاش کی جائے؟ حال ہی میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ فیصلہ سازوں نے سیاسی عدم استحکام اور موجودہ معاشی بحران کے درمیان تعلق اور اِس سے رونما ہونے والے مضر اثرات کو بطور حقیقت و حقائق تسلیم کر لیا ہے اگرچہ یہ تاخیر سے دیا گیا ’ردعمل‘ ہے لیکن سیاسی ہلچل کو کچلنے کے لئے حالیہ کوششیں صحیح سمت میں اُٹھائے گئے مثبت قدم کی نمائندگی کر رہی ہیں اور یہ واقعی ’امید کی کرن‘ ہے۔آگے کیا ہونے والا ہے؟ ’ضروری‘ اور ’کافی‘ کی اصطلاحات منطق و استدلال میں ان حالات یا عوامل کو بیان کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں جو کسی خاص نتیجے تک پہنچنے کے لئے ضروری یا کافی ہوں۔ جب پاکستان کی موجودہ معاشی و سیاسی صورتحال کی بات آتی ہے تو بلاشبہ معاشی ترقی کے لئے سیاسی استحکام ’ضروری (ناگزیر)‘ ہے۔ تاہم صرف سیاسی استحکام مثبت اور مطلوبہ نتائج لانے کے لئے ’کافی‘ نہیں ہوگا۔ معاشی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لئے بھی ایک ایسے معاشی روڈ میپ کی ضرورت اپنی رہے گی جس کے چار اہم عناصر ہوں۔ واضح معاشی اہداف‘ اچھی طرح سے متعین پالیسی ترجیحات‘ مؤثر نفاذ سے متعلق حکمت عملی اور پوری توجہ (تندہی) سے نگرانی و تشخیص۔ غور و فکر کے درمیان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری وزارت ِخزانہ واضح سمت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اپنے اقدامات کو ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری سے ہم آہنگ کرنے اور منظم نقطہ نظر تجویز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ ایک ایسا نکتہئ نظر جو اقتصادی پالیسی سازی کی رہنمائی کرے اور بالآخر استحکام‘ عملاً معاشی ترقی و خوشحالی کے فروغ کا باعث بنے؟ یہ مرحلہئ فکر کئی پہلو رکھتا ہے جو سنجیدہ و گہرائی سے توجہ اور غور و فکر کی متقاضی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)