کسنجر کا چین اور امریکہ پر حملہ

ہنری کسنجر سو برس کے ہو چکے ہیں لیکن وہ امریکہ و چین کے پیچیدہ تعلقات سے متعلق اپنے دانشمندانہ مشاہدات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کسنجر کا واشنگٹن کو مشورہ ہے کہ وہ چین کے خلاف جلد بازی اور مخالفانہ رجحانات سے گریز کرے اور سوچ سمجھ کر چین سے بات چیت کرے جو تنازع کی بجائے انسانیت کی بہتری کا ضروری درمیانی راستہ ہے لیکن اِس بات کے امکانات کم ہیں کہ امریکہ اس قابل احترام صد سالہ بزرگ کے مشورے پر سنجیدگی سے دھیان دے گا۔ جب عالمی معاملات کی بات آتی ہے تو کسنجر کا علم بے مثال گہرائی کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ انیسویں صدی کی سفارت کاری میں علمی سرگرمیوں سے لے کر قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے اور اس کے بعد چار دہائیوں تک کئی عالمی رہنماو¿ں کے قابل اعتماد مشیر و سفیر کی حیثیت رہنے تک اُن کے وسیع سفر نے انہیں منفرد نقطہ نظر سے نوازا ہے۔ دنیا بھر کے بادشاہوں‘ صدور اور وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربے بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے اور ہنری کسنجر کی طرح بہت کم لوگوں نے سیاست پر نقوش چھوڑے ہیں۔ تقریباً پانچ دہائیاں قبل اپنے آخری سرکاری عہدے سے سبکدوش ہونے کے باوجود‘ ان کا اثر و رسوخ اور خیالات امریکیوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رہے ہیں‘ آج بھی کسنجر کی حکومت کے صرف آٹھ سال کے دوران حاصل کی گئی کامیابیاں ان کے کامیاب عملی نقطہ نظر اور پختہ نظریات کا ثبوت ہیں۔صدر رچرڈ نکسن اور جیرالڈ فورڈ کے ساتھ قریبی تعاون کرتے ہوئے کسنجر نے امریکہ کو ویتنام کی جنگ اور سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ جیسی دلدل سے باہر نکالا اور امریکہ کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو مستحکم کیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اُن کی حکیمانہ سوچ ہی کا نتیجہ تھا کہ امریکہ اور چین کے سفارتی تعلقات کا آغاز اور اِس میں بہتری آئی جبکہ سوویت یونین (روس) کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط شراکت قائم کی گئی۔ مشرق وسطیٰ میں کسنجر نے اسرائیل کے لئے امریکی حمایت مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا جبکہ مصر کو سوویت مدار سے دور کر کے امریکہ کے ساتھ سودمند اتحاد میں شامل کیا‘ کسنجر کی چالاک سفارتی کاری ایک ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے جس کے بین الاقوامی تعلقات پر دیرپا اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔ کسنجر کا شاندار کیریئر چین و امریکہ کے درمیان مضبوط تعلقات کو فروغ دینے میں اِن کی قابل ذکر خدمات کی وجہ سے متاثر ہوا۔ نظریاتی اختلافات سے بالاتر ایک عملی نقطہ نظر سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے‘ کسنجر نے مہارت سے دونوں ممالک کے درمیان پیچیدہ اصلاحات کو آگے بڑھایا۔ حقیقت اور باہمی احترام کی بنیاد پر چین کے ساتھ بات چیت کرنے کے اُن کے پختہ عزم نے‘ مساوات پر زور دیتے ہوئے‘ سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی۔ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسنجر کی کوششیں اور تعاون اُن کے جذبے کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ چین و امریکہ کے درمیان ہم آہنگ تعلقات کو فروغ دینے میں اُن کی نکتہ نظر کو تقویت دیتی ہیں۔ ہنری کسنجر کا مخالفین کو سمجھنا اور اُن کی خواہشات کا احترام کیا گیا اور یہی وہ خصوصیت تھی جسے معاصر رہنماو¿ں نے نظر انداز کیا۔ چین کے معاملے میں کسنجر واضح طور پر کہتے ہیں کہ امریکی حکام اکثر چین کے عزائم کی غلط تشریح کرتے ہیں اور غلطی سے انہیں چین کی جانب سے عالمی بالادستی کی خواہش سمجھ لیتے ہیں۔ کسنجر نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ چین عالمی بالادستی کے تعاقب کی بجائے طاقت اور اثر و رسوخ کا خواہاں ہے۔ اس طرح کا نقطہ نظر چین کی ذہنیت اور عالمی نظام کی تشکیل کے نقطہ نظر کی وضاحت فراہم کرتا ہے۔ دی اکانومسٹ کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو میں ہنری کسنجر نے کئی اہم عالمی مسائل پر محتاط مشورے دیئے۔ ایک محتاط نقطہ¿ نظر کے ساتھ‘ انہوں نے چین اور امریکہ کے مابین تنازع کے ممکنہ خطرات کو مو¿ثر طریقے سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ کسنجر نے ’دی اکانومسٹ‘ کو دیئے انٹرویو میں چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی تکنیکی اور اقتصادی رقابت پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہم جنگ عظیم سے پہلے کی کلاسیکی صورتحال میں ہیں جہاں کسی بھی فریق کے پاس غلطی یا سیاسی رعایت کی زیادہ گنجائش نہیں ہے اور اِس موقع پر غیرمحتاط خلل تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک اور اِنٹرویو کے دوران کسنجر نے زور دے کر کہا کہ ”چین کے ساتھ جنگ روکنے کےلئے‘ امریکہ کو غیر جانبدارانہ دشمنی سے گریز کرنے اور بات چیت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ صورتحال کی سنگینی تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت‘ محتاط غور و خوض اور دوراندیشی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ کسنجر کے سفارتی نقطہ¿ نظر کی جڑیں عملی حقیقت پسندی میں پیوست ہیں اور وہ نظریاتی تعصبات سے اجتناب کرتے ہوئے تعلقات کو توازن پر فوقیت دیتے ہیں‘ دوسری جنگ عظیم کے تلخ تجربے کی بنیاد پر‘ جس دور میں بے مثال تباہی اور تشدد ہوا‘ کسنجر نے جنگ کی انسانی قیمت کو تسلیم کیا‘ اس تفہیم سے استفادہ کرتے ہوئے وہ تنازعات میں الجھنے سے گریز اور ناقابل تلافی نقصانات سے بچنے پر زور دیتے ہیں‘ تاریخ کے اسباق کے بارے میں گہری آگہی کےساتھ‘ کسنجر ایک ایسا راستہ چاہتے ہیں جو عالمی تنازعات کے پرامن حل اور باہمی افہام و تفہیم پر مبنی ہو‘ انکا دانشمندانہ نقطہ¿ نظر بروقت یاد دہانی ہے کہ جنگوں سے بچنے سے حاصل ہونے والے حقیقی فوائد عارضی فوائد سے کہیں زیادہ ہیں جو وہ پیش کرتے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)