غذائی قلت اور مستقبل غذائی قلت اور مستقبل 

غذائی قلت پر قدرتی آفات کے اثرات ناقابل تردید حقیقت کے طور پر تباہ کن ہیں‘ جس میں عالمی سطح پر بھوک میں اضافہ‘ غذائیت سے بھرپور خوراک تک ناکافی رسائی اور غذائی عدم تحفظ کی بڑھتی ہوئی صورتحال شامل ہیں۔کورونا وبا نے عالمی غذائی بحران کو متاثر کیا جو پہلے ہی سے مثالی شکل و صورت میں نہیں تھا۔ غذائی قلت مختلف صورتوں میں ہمارے سامنے موجود ہے جس میں آئرن کی کمی‘ بھوک و موٹاپا وغیرہ شامل ہیں۔ گلوبل نیوٹریشن رپورٹ 2022ءمیں عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بھوک میں نمایاں اضافے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سال 2019ءمیں عالمی سطح پر انتہائی بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد قریب باسٹھ کروڑ تھی جو بڑھ کر 77کروڑ ہو چکی ہے! دنیا کی کل آبادی آٹھ ارب میں سے کم از کم سات ارب افراد غذائیت سے بھرپور غذا حاصل نہیں کر رہے۔ پاکستان بھی کورونا وبا سے متاثر ممالک میں شامل ہے اور اِسے درپیش غذائی قلت کے چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ متاثرہ طبقات کی معیشت و معاشرت متاثر ہونے سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔ ملازمتوں اور 
آمدنی میں کمی ہوئی ہے‘ جس سے افراد اور گھرانوں کےلئے مناسب اور غذائیت سے بھرپور کھانے پینے تک رسائل مشکل ہو گئی ہے‘ پاکستان میں سال دوہزاربائیس کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں بھی متاثرہ علاقوں میں بچوں میں شدید غذائی قلت اور آئرن کی کمی میں اضافہ دیکھا گیا۔ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں صحت کے مراکز میں داخل پانچ سال سے کم عمر کے نو میں سے ایک سے زیادہ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں‘ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تقریبا ًسولہ لاکھ بچوں کو فوری علاج معالجے کی ضرورت ہے۔ غذائی کمی کی موجودہ ”ہنگامی صورتحال“ سے نمٹنے کے ساتھ بچوں اور ماو¿ں میں سٹنٹنگ اور آئرن کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی ہو رہی ہے اور اِس سے مسلسل مسائل سے نمٹنا آبادی کے لئے مجموعی غذائی کمی کو بڑھانے کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سیلاب سے پہلے بھی غذائی قلت ایک عام مسئلہ تھا۔ قدرتی آفات کے دوران لاک ڈاو¿ن‘ نقل و حرکت پر پابندی اور نقل و حمل میں خلل کے نتیجے میں خوراک کی فراہمی (سپلائی چین) متاثر ہوئی جو غذائیت سے بھرپور خوراک کی دستیابی اور رسائی کو متاثر کرنے کا سبب بنی۔ اِس عمل نے پہلے ہی غذائی کمی کا شکار کمزور و پسماندہ طبقات کو متاثر کیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے بھی حکومتی غذائیت کے پروگراموں پر مضر اثرات ظاہر ہوئے ہیں جیسا کہ کمزور بچوں کے لئے غذائیت کی فراہمی کے حکومتی پروگرام جاری نہیں رکھے جا سکے۔ اِن پروگراموں کی معطلی نے بہت سے بچوں کو ضروری غذائی اجزا¿ سے محروم کر دیا‘ جس سے غذائی قلت کی صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے سندھ اور بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اِظہار کرتے 
ہوئے ’ہنگامی امداد‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے کیونکہ غذائی کمی سے نومولود بچوں کی اموات اور بچوں میں خون کی کمی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے‘ پاکستان میں سال دوہزاربائیس کے سیلاب سے پہلے بھی بچوں کی بڑی تعداد غذائی قلت کا شکار تھی لیکن سیلاب نے اِس صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے اور یہ حقیقت ’نیشنل نیوٹریشن سروے‘ میں بھی اُجاگر ہوئی ہے۔ کمزور بچوں کی غذائی ضروریات پورا کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ غذائی قلت کے صحت پر ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے غذائی تحفظ کے لئے 55لاکھ ڈالر مختص کر رکھے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ فنڈنگ کافی نہیں اور اضافی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ معاشی چیلنجوں اور عالمی عدم استحکام کی وجہ سے عطیہ دہندگان کے تعاون پر اثر انداز ہونے کے باوجود‘ غیر ضروری علاقوں سے فنڈز منتقل کئے جانے چاہئیں تاکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں اور بالغوں کے لئے مناسب خوراک یقینی بنائی جا سکے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فوزیہ وقار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)