ماہرین معاشیات نے رواں مالی سال کے دوران ڈالر کی قدر میں کمی کے امکان سے انکار کردیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ مہنگائی میں کمی کی کوئی گنجائش نہیں۔
ویسے تو زر مبادلہ کی شرح مستحکم نظر آرہی ہے، کیونکہ روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں 280 روپے سے نیچے ہے، تاہم، کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ رواں مالی سال کی تکمیل کے ساتھ ہی ڈالر 310 روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
ریئل ٹائم مارکیٹ ریٹ، چارٹس اور مالیاتی ڈیٹا کے لیے مالیاتی ٹرمینل ”ٹریس مارک“ کے سی ای او فیصل مامسا کا کہنا ہے کہ ’رواں مالی سال روپیہ ڈالر کے مقابلے 286 پر شروع ہوا۔ تاریخی رجحانات کو دیکھتے ہوئے، 7 سے 10 فیصد کی سالانہ گراوٹ ایک عام سی بات ہے، جو برآمد کنندگان کو سپورٹ کرتی ہے اور حقیقی مؤثر شرح مبادلہ (REER) کو برابر کے قریب رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جون کے آخر میں بند ہونے والے نرخ 310 فی ڈالر کے لگ بھگ ہوں گے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آج کے دن تک روپیہ درحقیقت تقریباً دو فیصد مضبوط ہے، اور اس میں کسی بڑی گراوٹ کا امکان نہیں ہے۔‘
تاہم، بیشتر تجزیہ کاروں اور محققین کا خیال ہے کہ بے لگام مہنگائی اب پوری معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے اور معیشت کے اس بے قابو دشمن سے نمٹنے کے لیے تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مہنگائی ناصرف ختم ہونے سے انکاری ہے، بلکہ دیگر تمام پالیسیاں بھی اب اسے معمول بنانے کی طرف جارہی ہیں۔
یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس میں زیادہ تر معیشتیں معاشی ترقی پر افراط زر کو ترجیح دیتی ہیں۔
پاکستان کی حکومتی پالیسیوں میں بھی اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ کیونکہ شرح سود 22 فیصد پر رکھ کر مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی نمو پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔
جب روپیہ گرتا ہے تو یہ درآمدی افراط زر کے جز میں اضافہ کرتا ہے۔
ایک تجزیہ کار نے کہا کہ اس سے بچنے کے لیے مقامی کرنسی کو مضبوط کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ یہ قائم کی گئی ”ریورس کرنسی وارز“ کا حصہ ہے جس کا مقصد افراط زر پر قابو پانا ہے۔
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات نے بھی موجودہ معاشی منظر نامے میں غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک کہ دسمبر میں افراط زر کی شرح 29.7 فیصد سے نمایاں طور پر کم نہ ہو نئی حکومت کی جانب سے بھی کسی بڑی معاشی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں، روپیہ اس سال جون کے آخر تک نرمی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی کے باوجود برآمد کنندگان اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
حکومت صنعت کے لیے نو سینٹ فی واٹ بجلی کی شرح طے کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے بالآخر برآمد کنندگان کو مدد ملے گی۔ تاہم اس منصوبے کے لیے آئی ایم ایف سے منظوری درکار ہے۔
کرنسی مارکیٹ کے ماہر اور ڈیلر ایس ایس اقبال کہتے ہیں کہ ’پیداوار کی اس بلند لاگت نے اسٹیٹ بینک پر شرح سود کو کم کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ پیدا کیا ہے، لیکن غیر متوقع مہنگائی نے اگلی کرنسی پالیسی میں شرح سود میں کمی کا دروازہ بند کر دیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک پیر کو مانیٹری پالیسی کا اعلان کرے گا اور زیادہ تر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خاص طور پر بلند افراط زر کی وجہ سے شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
تاہم مرکزی بینک کا خیال ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں افراط زر میں کمی آئے گی۔