درس و تدریس : جدید اسلوب

پاکستان کا تعلیمی منظر نامہ نازک موڑ پر کھڑا ہے جس کا فوری اور جامع جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ملک بھر میں تعلیم یعنی درس و تدریس کے شعبے کو بہتر بنانے کے لئے ”انقلابی تبدیلی“ کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں تعلیمی اداروں کی طویل تاریخ رہی ہے جنہوں نے قابل ذکر اور قابل فخر محققین اور دانشور پیدا کئے ہیں تاہم ہمارے تعلیمی اِداروں کی موجودہ حالات زار اور اِس شعبے کی صورت حال قطعی مختلف تصویر پیش کر رہی ہے‘ جو بہت سے مسائل کی آماجگاہ ہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی ہے۔پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے تناظر میں دیکھا جائے تو جامعات اور صنعتوں کے درمیان تعلق یا تعاون دکھائی نہیں دیتا جو اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ تحقیق اور جدت کو یونیورسٹی اور صنعت کے تعاون سے سہولت فراہم کئے بغیر تعلیم کے ثمرات حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ صنعتی نقطہ نظر کے ساتھ علمی علم کا انضمام حقیقی دنیا کے مسائل کے حل کی تخلیق کو فروغ دیتا ہے۔ یہ شراکت داری پاکستان کو بہت سی رکاوٹوں پر قابو پانے میں مدد دے سکتی ہے جیسا کہ زراعت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے یا پھر تکنیکی ترقی ممکن ہے جس سے ملک کی معیشت کو فروغ ملے گا۔ صنعتوں کو اکثر مخصوص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یونیورسٹیاں ان ضروریات کو پورا کرنے والے تعلیمی پروگرام فراہم کرسکتی ہیں۔ یونیورسٹیاں ایسے گریجویٹس پیدا کر سکتی ہیں جو صنعت کی ضروریات کے ساتھ اپنے کورسز کو مربوط کرکے لیبر مارکیٹ کے لئے درکار افرادی قوت بہتر طور پر تیار کر سکے۔ یہ تعلقات ہنرمندی کے فرق کو پُر کرنے اور روزگار بہتر بنانے سے پاکستانی صنعتوں اور گریجویٹس کو یکساں طور پر فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ سب سے اہم مسائل میں سے ایک پاکستان کی بہت سی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا پرانا نصاب ہے۔ اِس پرانے نصاب کی وجہ سے ہمارے طالب علموں کی اکثریت دنیا میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے پا رہی۔ ہمارے ہاں گریجویٹس تو ہیں لیکن وہ علم کی جدید ثقافت سے بہرہ مند نہیں اور یوں انتہائی ضروری مہارتوں سے محروم ہیں۔ تعلیمی اور پیشہ ورانہ مراحل (ڈومینز) میں‘ تحقیقی کانفرنسیں اور سیمینارز کا انعقاد اپنی جگہ ضروری ہے کیونکہ اِن سے ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جس سے ”علم کا تبادلہ“ ہو اور علمی تجربات سے متعلق تعاون تشکیل دیا جائے جبکہ اِس سے تخلیقی خیالات کی پرورش بھی ہوتی ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ جامعات کی سطح پر پاکستانی فیکلٹی (پروفیسرز‘ لیکچرارز) کی اکثریت نہ تو سیمینار کرتی ہے اور نہ ہی اِن میں شرکت کرنے کو ضروری سمجھتی ہے۔ درحقیقت وہ اِس قسم کی کاوشوں کو بیکار سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے نظریات یا مفروضے کی حمایت کے لئے اُن کے پاس کوئی دلیل‘ تحقیق یا حوالہ بھی نہیں ہوتا۔ پڑھنا صرف طالب علم ہی کے لئے نہیں بلکہ ایک معلم کے لئے بھی ضروری ہے اور کانفرنسوں یا ویبینرز (webinars) میں سوالات پوچھنے سے دماغ کھلتا ہے۔ کیا ہمارے تعلیمی ادارے بشمول جامعات اساتذہ کے لئے صرف پرکشش روزگار کا ذریعہ ہیں؟ کسی سبق کو یاد رکھنے اور اُسے رٹے سیکھنے طریقے پر دیکھنے سے تنقیدی سوچ اور ذہنی صلاحیت میں کمی آتی ہے جبکہ یہی دو مہارتیں تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور بیشتر مسائل حل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ یہ نکتہ بھی پیش رکھنا چاہئے کہ اعلیٰ درجے کی تعلیم میں اگر اختلافات کو ہوا دی جائے گی تو اِس سے معاشرتی تقسیم بڑھے گی۔ دیہی اور غریب علاقوں میں محدود وسائل‘ کم اہلیت رکھنے والے اساتذہ کی تعیناتی اور تعلیمی ڈھانچے کی سہولیات میں کمی کی وجہ سے عدم مساوات کی صورتحال نے اِس پورے منظرنامے کو مزید خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ اکیڈیمیا میں تحقیق اور ترقی کی قدر کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے حالانکہ نتیجہ اور صورتحال سب کے سامنے ہے۔ بدقسمتی سے‘ پاکستان کا تحقیقی کلچر محققین کو بامعنی تحقیق کرنے کے لئے مالی و دیگر وسائل اور ترغیب نہیں دے رہا۔ اس سے نہ صرف تعلیمی ترقی بلکہ ملک کی تکنیکی جدت اور ترقی کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ تعلیم صرف امتحانات کا نام نہیں۔ کسی بھی درجے کے طالب علم کی مجموعی بہتری کا اندازہ عام طور پر اُس کے گریڈ سے لگایا جاتا ہے‘ جو کردار کی نشوونما‘ جذبات و ذہانت اور عملی صلاحیتوں جیسے اہم پہلوو¿ں کو نظر انداز کرنے کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے تعلیمی نظام میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ متعلقہ اور جدید نصاب متعارف کروانا‘ اساتذہ کے تربیتی پروگراموں کی فنڈنگ‘ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان تعلیمی تقسیم کم کرنا اور تحقیق پر مبنی ماحول کو فروغ دینا یہ سب پاکستانی تعلیمی اداروں کی بحالی کے لئے اہم و ضروری اقدامات ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابدہ نورین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)