اہم قومی اور عالمی امور کا ایک جائزہ 

ترکی کے قربان جائیے کہ اس نے مشکل کی ہر گھڑی میں عملی طور پر بھی ہماری مدد کی۔شنید ہے کہ اس نے کئی جدید میزائل بھی حال ہی میں ہمیں فرا ہم کئے‘ اب سنا ہے کہ بھارت اس بات پر سخت سیخ پا ہے کہ امریکہ نے ترکی پر ففتھ جنریشن fifth generationکے جدید ترین ایف 35  جہاز کیوں فروخت کئے ہیں کہ وہ کہیں پاکستان ائر فورس کے ہاتھ لگ گئے تو وہ تو بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ادھر بھارت کے اس بات پر بھی پسینے چھوٹ گئے ہیں کہ چین نے اس کے ساتھ اپنے پرانے بارڈر کے تنازعہ پر اس کو آ نکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ یاد رہے کہ1960ء کی دہائی میں چین کے ساتھ بھارت کی بارڈر کے تنازعہ پر جو لڑائی ہوئی تھی اس میں چینی فوج نے بھارت کی فوج کے چھکے چھڑا  دئیے تھے۔ ایران کے سربراہ نے بالکل درست  کہا ہے کہ امریکی صدرپر کوئی کس طرح اعتبار کرے کہ ایک طرف تو وہ ایران سے اس کے جوہری پروگرام پر سمجھوتے کی بات کرتے ہیں اور دوسری  طرف  ایران کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔اس وقت دنیا میں ساٹھ کے قریب ایسے تنازعات ہیں کہ جن پر اگر جنگ چھڑتی ہے تو وہ تیسری عالمگیر جنگ کا سبب بن سکتی ہے‘ان میں چیدہ چیدہ مسائل یہ ہیں تائیوان پر چین اور امریکہ کا تنازعہ‘ یوکرائن اور روس کا جھگڑا‘مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کشمکش‘ کشمیر پر تنازعہ‘  چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ۔ اقوام متحدہ کی افادیت پر بھی اب سوال اٹھنے لگے ہیں اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جس طرح اس سے پہلے لیگ آ ف نیشنز سپر پاورز کے ہاتھوں بے بس ہو کر اپنی موت آپ مر گئی تھی بالکل اسی طرح اقوام متحدہ کا بھی کہیں اسی قسم کا انجام نہ ہو جائے کیونکہ اس میں بھی اسی قسم کی خامیاں پیدا ہو چکی ہیں جو لیگ آ ف نیشنز کی موت کا سبب بنی تھیں۔بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے کہ جس کی ائر فورس اپنے فائٹر جہاز خود بنا رہی ہے‘جب کہ امریکہ جیسا ملک بھی یہ کارنامہ سرانجام نہیں  دیتا وہاں یہ کام پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ہیں جن سے پھر امریکہ کی حکومت یہ جہاز خریدتی ہے۔ ہوا یوں کہ جب امریکہ نے ایف 16کی سپلائی کے سودے میں گڑ بڑ کی تو اس وقت کی ہماری ملکی قیادت نے سوچا کہ یہ تو امریکہ کسی وقت بھی اس جہاز کے سپیئر spare parts سپلائی روک کر ہمیں بلیک میل کر سکتا ہے‘ لہٰذا کیوں نہ ہم خود جہاز بنائیں اور اس طرح ہم نے وہ جہاز بنا لئے کہ جن کہ مثالی کارکردگی حالیہ پاک بھارت جنگ میں دنیا نے دیکھی۔اس وقت بلوچستان جس قدر زندگی کے ہر شعبے میں حکومتی توجہ کا مستحق ہے اس قدر توجہ غالباً اسے نہیں مل رہی جو بات قابل افسوس ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اس صوبے کے ایوان اقتدار میں کافی عرصے تک جو لوگ بھی براجمان رہے کہ بھلے  اگر وہ بھی اپنے اپنے دور اقتدار میں اپنے صوبے میں اجتماعی عوامی فائدے کے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کراتے تو کافی فرق پڑ سکتا تھا‘ بہر حال جوہونا تھا وہ توہو چکا اب اس پر آنسو بہانے کا کیا فائدہ اب آ گے کی فکر کی ضرورت ہے‘وزیر اعظم صاحب کویہ معمول بنا  لینا چاہئے کہ وہ ہر ماہ بلا ناغہ دو چار دن کے لئے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنا  کیمپ آفس لگایا کریں جہاں وہ کھلی کچہری بھی لگائیں اور اپنی کابینہ کے اراکین کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں‘بلوچستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے کثیر المقاصد ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جن کی مانیٹرنگ از حد ضروری ہے‘اس میں کوئی شک نہیں کہ مانیٹرنگ جس شعبے میں بھی ہوگی وہاں نتائج سو فیصد عوام کے حق میں ہوں گے۔