دبی ہوئی آواز کی گونج

جارج فلائیڈ کی موت نے جہاں امریکی معاشرے میں موجود نسلی منافرت کو بے نقاب کیا
 وہاں اس سے نسل پرستی کے خلاف ایک ایک منظم بین الاقوامی تحریک نے جنم لیا

 

جارج فلائیڈ کی سانس گھٹ رہی تھی وہ دبی ہوئی وآواز میں کہہ رہاتھا ،”آئی کانٹ بریتھ مین “ سفید فام پولیس والے ڈیرک شوون کاگھٹنا9منٹ تک اس کے گلے پررہا جبکہچند ہی منٹ میںجارج فلایڈ کا جسم ساکت ہوگیا تھااور اس کی دبی ہوئی آواز بھی ختم ہوگئی تھی مگر اس کو معلوم نہ تھا کہ اس کی گھٹی ہوئی آواز نے ایک ایسی گونج بن گئی ہے جس نے دنیا کو ہلا ڈلا، امریکہ ، برطانیہ سمیت دنیا بھر کے سفید فام ممالک میں نسلی امتیاز کے خلاف جو آواز اٹھی وہ جارج فلائڈ کی گھٹی ہوئی آواز کی گونج ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ سفید فام لوگوں کی اکثریت آج بھی اس بات سے انکاری ہے کہ امریکا میں نسلی تعصب ایک تلخ حقیقت ہے۔ ایسے میں سفید فام امریکیوں کو صرف امن کی نہیں بلکہ انصاف کی بات بھی کرنی ہو گی۔ایک یورپین تجزیہ نگار لکھتی ہیں کہ امریکی شہریوں کیلئے ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام امریکی کی ہلاکت کوئی چونکا دینے والا نہیں کیونکہ ایسے واقعات کی ویڈیوز پہلے بھی کئی مرتبہ منظر عام پر آئی ہیں۔ جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے واقعے کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں 2015 کے ریاست میزوری کے شہر فرگوسن میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کی گونج ہے۔ اسی طرح 1992 میں روڈنی کنگ نامی سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد بھی پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں طبقاتی خلیج بڑھتی جارہی ہے ، اسی یورپین تجزیہ نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسے حالات میں دانشور، ماہرین اور سماجی کارکنان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں امریکہ کی منطقی ٹوٹ پھوٹ کا وقت تو نہیں آن پہنچا کیونکہ اس وقت ریاستی اور بنیادی معاشرتی ڈھانچے کی خرابیاں بلند ترین سطح پر ہیں ان میں سب سے اہم منظم نسلی تعصب ہےجو امریکہ کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ایسے واقعات کی ایک پوری لڑی ہے جس میں نسلی تعصب کی آگ کے شعلے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیتے نظر آرہے ہیں، فروری2020ء جارجیا میں ایک سیاہ فام شخص کو دو سفید فام گارڈز نے جوگنگ کے دوران گولی مار دی تھی اسی طرح ایک اور ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں نیویارک شہر میں ایک سفید فام خاتون نے پارک میں موجود ایک سیاہ فام امریکی پر اپنا کتا چھوڑ دیا تھا جس نے بعد میںپولیس کے سامنے کہا کہ اسے اور اس کے کتے کو اس سیاہ فام شخص سے خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔2015 میں فرگوسن شہر کے فسادات کے دوران یہ نعرہ 'بلیک لائیوز میٹر‘ یعنی سیاہ فام زندگیاں بھی اہم ہیں مشہور ہوا تھاا سکے مقابلے میں سفید فام نسل پرستوں نے 'آل لائیوز میٹر‘ یعنی سبھی زندگیاں اہم ہیں کا نعرہ لگایا۔اس وقت امریکہ میں وائٹ ہاﺅس میں موجود صدر ٹرمپ کوسفید فام نسل پرستوں کی اکثریت سپورٹ کرتی ہے۔جارج فلائیڈ کی موت کے بعد امریکہ کی تمام ریاستوں سمیت پوری دنیا میں مظاہروں کاسلسلہ شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔ برطانیہ میں وسطی لندن میں متعدد افراد پارلیمنٹ سکوائر میں حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاو¿ کے خدشے کے باعث مظاہرے نہ کرنے کی تنبیہ کے باوجود اکھٹے ہوئے۔اس کے علاوہ آ سٹریلیا، جرمنی، سپین اور فرانس میں بھی نسلی امتیاز اور پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کیے گئے۔برطانیہ برسٹل میں مظاہرین نے رسیوں کے ذریعے پیتل سے بنے ایڈورڈ کولسٹن کے مجسمے کو گرا دیا۔ ان کا مجسمہ اس سے قبل بھی شہر میں تنازعات کی وجہ بنا ہے۔کولسٹن رائل افریقی کمپنی کے رکن تھے جو افریقہ سے امریکہ کو 80 ہزار مرد خواتین اور بچے غلامی کے لیے پہنچایا کرتی تھی۔جب یہ مجسمہ گر گیا تو مظاہرین میں سے ایک شخص نے اس کی گردن پر گھٹنا رکھا، جیسے جارج فلائیڈ کی گردن پر رکھا گیا تھا، اور تصویر کھنچوائی۔اس کے بعد اس مجسمے کو برسٹل کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر دریا میں پھینک دیا گیا۔ اس مجسمے کے اکھڑنے کے باعث خالی ہونے والی جگہ کو سٹیج کے طور پر استعمال کیا گیا۔ا س سے قبل امریکی ریاست ورجینیا کے شہر رچمنڈ میں میں کنفیڈریٹ جنرل کا مجسمہ گرا دیا گیا۔ امریکہ میں نسلی تقسیم کے خلاف اس وقت جو فضاءبنی ہوئی ہے وہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کی میئر موریئل باو¿سر نے مظاہرین کی قیادت کی اور کہا کہ اس مظاہرے کے ذریعے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیغام پہنچ گیا ہے۔اس موقع پر میئر کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ (صدر ٹرمپ) واشنگٹن ڈی سی کا انتظام سنبھال سکتے ہیں تو پھر وہ کسی بھی دوسری ریاست کے امور میں مداخلت کر سکتے ہیں اور پھر ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ ہمارے فوجیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں ہونا چاہئے، انھیں امریکی شہریوں کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم نہیں دینا چاہئے۔‘اس سے قبل مئیر نے تمام وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نیشنل گارڈ کے دستوں سے شہر چھوڑنے کی درخواست کر دی تھی اور کہا تھا کہ ان کی موجودگی غیر ضروری ہے۔ان مظاہروں میں شریک 46 سالہ کرسٹل بالنگر کا کہنا تھا کہ وہ اس مرتبہ اس تحریک کے حوالے سے پرامید ہیں۔'مجھے اس مظاہرے کے حوالے سے مختلف محسوس ہو رہا ہے۔۔۔ مجھے امید ہے کہ اس کے باعث یکجہتی اور مساوات کا پیغام لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ اورپوری دنیا میں نسل پرستی اور پولیس گردی کے خلاف مظاہروں کے نتیجے میںامریکہ کی کئی ریاستوں میں پولیس اصلاحات کے مطالبات زور پکڑنے لگے ہیں اور امریکا میں پولیس زیادتیوں کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے ایک اہم تجویز پولیس فنڈنگ میں کمی کرنے کی آئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شہروں میں عموما محکمہ پولیس کی فنڈنگ تعلیم اور ہاو¿سنگ جیسے دیگر شعبوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جس میں فوری طور پر کمی کی ضرورت ہے۔ کئی حلقوں نے اس کی حمایت کی ہے اور پولیس کی فنڈنگ کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔میناپولس امریکہ میں محکمہ پولیس کی اصلاحات پر زور دینے والے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ وسائل اور فنڈنگ کو پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے سیفٹی، سپورٹ اور احتیاط کے لیے کمیونٹی سطح پر ایک نئے ماڈل کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی کے بہت سے ارکان پارلیمان بھی پولیس فنڈنگ میں کمی کے حامی ہیں۔ رکن پارلیمان الیکزنڈریا اوکاسیو کورٹیز نے بھی اس کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیو یارک سٹی کی پولیس کی فنڈنگ کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس کا بجٹ چھ ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔منیاپولس جہاں پولیس کے ہاتھو جارج فلوئیڈ کی موت ہوئی تھی، کے بھی کئی ارکان نے پولیس کی فنڈنگ میں کمی کی حمایت کرتے ہوئے محکمہ پولیس کو ختم کرکے تشکیل نو کی ضرورت پر زور دیا ہے۔یہاں کی مقامی کونسل کی صدر لیزا بینڈر کا کہنا تھا کہ جلد ہی اس بات پر بات چیت کرنے والی ہے کہ آیا محکمہ پولیس کا متبادل کیا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب پولیس کی فنڈنگ کو دوسرے محکموں کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے۔نیو یارک کے میئر نے بھی شہر کو مزید انصاف پسند بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے ایک سیکشن کا بجٹ اب نوجوانوں اور سوشل ورک کو فراہم کیا جائیگا۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کی تادیبی کارروائیو ں سے متعلق فائلوں میں زیادہ شفافیت برتی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحی اقدامات بس ایک آغاز ہے اور جلد ہی مزید تبدیلیوں کا اعلان کیا جائیگا۔امریکہ میں اس وقت مظاہروں اور نسل پرستی کے خلاف جو لہر جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعداٹھی ہے ، وہ آئندہ صدارتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہوگی ۔اس وقت سابق امریکی صدر باراک اوباما کا امریکی سیاسی و سماجی منظر پر متحرک ہونا اہم قرار دیا جا رہا ہے ان کی اس طرح آمدرواں برس کے صدارتی انتخابات پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہیں اور بارک اوباما کے متحرک ہونے سے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے انتخابی مہم میں یقینی طور پر مشکلات پیدا ہوں گی جن کو اوباما کے سابق نائب صدر جو بائیڈن کا سامنا ہو سکتا ہے۔اوباما واضح انداز میں اپنے عملی اقدامات میں موجودہ صدر پر بھرپور انداز میں تنقید کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا میں اس وقت یقینی طور پر مناسب عملی قیادت کا بحران دکھائی دے رہا ہے، ایسی قیادت جو بحرانی صورتحال میں عوام کو اطمینان فراہم کر سکے۔بدھ تین مئی کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایک تقریب میں اوباما شریک تھے۔ اس تقریب میں نوجوان امریکی شہریوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اوباما نے اپنے ملکی نوجوانوں کے ساتھ موجودہ سیاسی صورت حال پر گفتگو کی۔ اس میں سیاہ فام شہری جارج فلوئڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی عوامی بے چینی پر خاص طور پر فوکس کیا گیا۔اوباما نے اپنی گفتگو میں واضح کیا کہ امریکا کو اس وقت ایک ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جو معاشی و معاشرتی بے چینی میں کمی کا باعث بن سکے۔اوباما فاو¿نڈیشن کے زیر اہتمام ہونے والی تقریب میں سابق صدر نے نوجوان شرکا کو بتایا کہ ملک ایک ایسے سیاسی دور سے گزر رہا ہے، جس میں ایک باقاعدہ منصوبے کے ساتھ اصلاحات متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی تقریب میں ایک مقرر نے کہا کہ اوباما موجودہ بحرانی دور میں فریقین میں ضروری مکالمت کے عمل میں شامل ہو سکتے ہیں۔اسی خصوصی تقریب میں اوباما نے حالیہ مظاہروں کا تقابل سن 1960 میں جنم لینے والی مختلف تحریکوں سے بھی کیا۔ اس کا قوی امکان ہے کہ ایک خاموشی کے بعد وہ سیاسی طور پر متحرک ہوکر جو بائیڈن کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کی تائید کر دیں۔یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جارج فلائیڈ کی موت نے امریکہ میں ایک ایسی تحریک کو جنم دیا ہے جسے بارک اوبامہ نے 1960کی تحریک کے ساتھ تشبیہ بلا وجہ نہیں دی بلکہ یہ ماضی سے یکسر مختلف تحریک ہے جس میں زور اور قوت ہے جو نہ صرف امریکہ میں محکمہ پولیس بلکہ پورے ڈھانچے کی تبدیلی کیوجہ بن سکتی ہے اور اس کے اثرات امریکہ سے باہر بھی محسوس ہوں گے، جس طرح برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں اس واقعے کو بنیاد بنا کر مظاہرے ہو رہے ہیں تو اس سے واضح ہے کہ جارج فلائیڈ کی موت سے عالمی سطح پر نسل پرستی کے خلاف تحریک کی راہ ہموار ہوگئی ہے