سمندری طوفان بپر جوائے

اس وقت گردو پیش میں بپر جوائے نامی طوفان کی خبریں نمایاں ہیں‘جن سے پاکستان اور بھارت کے ساحلی علاقوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ‘ محکمہ موسمیات کے مطابق بپر جوائے نامی سمندری طوفان قریب ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز رفتار ہواﺅں اور 35 سے 40 فٹ کی لہروں کے ساتھ ملک کے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں کی جانب رواں دواں ہے۔موجودہ ماحولیاتی کیفیت کی وجہ سے کراچی سے 760 کلومیٹر دور یہ سمندری طوفان اگلے 24 گھنٹوں میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور یہ ایک بہت طاقتور سمندری طوفان کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔اس طوفان کے رخ کا تعین کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ ہوا کی سمت کے حساب سے اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس طوفان کا رخ جنوب مشرقی سندھ کی جانب ہو اُدھر قدرتی آفات سے نمنٹے والے ادارے این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ اس سمندری طوفان کی پیشرفت کو جانچ کر ہی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے گا کہ یہ کس مقام پر ساحل سے ٹکرائے گا اور اس کے کیا اثرات ہوں گے۔اس اندیشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ اس طوفان کے ساتھ تین میٹر یعنی آٹھ سے دس فٹ بلند لہریں بھی ساحلی پٹی سے ٹکرا سکتی ہیںیہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ سائیکلون کیسے بنتے ہیں۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق سائیکلون گرم ہوا کی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور ایک گول دائرے کی شکل میں آگے بڑھتے ہیں‘ ایسے طوفان اپنے ساتھ کافی تیز ہوائیں اور بارش لاتے ہیں جو سمندروں کے گرم پانی کے اوپر جنم لے کر آگے بڑھتے ہوئے شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔سمندری طوفان زیادہ تباہ کن اس لئے ثابت ہوتے ہیں کہ پانی کی سطح پر سفر کے دوران سمندری طوفان کی شدت بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طوفان کے اوپر موجود گرم ہوا ایندھن کا کام کرتی ہے۔جیسے جیسے یہ گرم ہوا بلند ہوتی ہے اس کی جگہ متبادل ہوا لے لیتی ہے اور اسی سے طوفان یا سائیکلون بنتا ہے ‘زیادہ تر ممالک میں ایسی آبادیوں کو جو ساحل کے قریب ہوں، وہاں عمارات کی تعمیر میں اس بات کا خیال رکھا جا تا ہے کہ سمندری طوفان سے ان کو زیادہ نقصان نہ ہو۔چونکہ موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان کو بھی سائیکلون سے متاثرہ ہونے والے ممالک میں شامل کر دیا ہے تو ایسے میں ضروری ہے کہ جن علاقوں کے اس سے متاثر ہونے کا امکان زیادہ رہتا ہے وہاں پر عمارات کی تعمیر میں اس امر کو مد نظر رکھا جائے۔اب آخر میں یہ تذکرہ بھی ہوجائے کہ ان سمندری طوفانوں کے نام کون رکھتا ہے اور اب تک پاکستان نے کتنے طوفانوں کے کون سے نام رکھے ہیں۔سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون (پی ٹی سی)کہا جاتا ہے۔اس پینل میں ابتدائی طور پر سات ممالک تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب 13 ہو گئی ہے جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، مالدیپ، سری لنکا، عمان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں‘بائپر جوائے طوفان کو نام بنگلہ دیش کی جانب سے دیا گیا ہے؛2004ءسے قبل طوفان کے اس طرح کے ناموں کی کوئی روایت نہیں تھی جس طرح آج ان کے نام رکھے جاتے ہیں۔ ماضی میں سمندری طوفانوں کو ان کے نمبر سے یاد رکھا جاتا تھا؛1999ءمیں ایک سائیکلون جو بدین اور ٹھٹھہ سے ٹکرایا تھا، تب اس کا نامZero 2-A تھا جو اس سیزن کا بحیرہ عرب کا دوسرا طوفان تھا۔بعد ازاں تمام ممالک کے محکم موسمیات کے درمیان یہ طے پایا کہ طوفانوں کے ایسے نام ہونے چاہئیں جو یاد رکھنے میں آسان ہوں، ادا کرنے میں سہل ہوں۔پی ٹی سی کے رکن ممالک کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ ہر ملک باری باری سمندری طوفان کو ایک ایک نام دے گا۔ اس طرح 2004 ءمیں ایک فہرست بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں طوفانوں کے جو نام تجویز کئے گئے ان تمام کو استعمال کیا گیا۔پاکستان نے اس فہرست میں جن طوفانوں کے نام تجویز کئے تھے ان میں فانوس، نرگس، لیلیٰ، نیلم، نیلوفر، وردہ، تتلی اور بلبل شامل ہیں؛یاد رہے کہ طوفانوں کے نام رکھنے کے لئے پی ٹی سی میں شامل رکن ملکوں کے انگریزی حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان ملکوں کی باری آتی ہے۔