وقت کی پابندی

وقت کو اگر بادشائے وقت کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ ہر کمزور او ر طاقتور کو اس کی بات کو ماننا اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہوتاہے،یہ کسی کیلئے رکتا نہیں، کسی کی غلطی کو نظر انداز کرتا نہیں، کسی کے منصب اور عہدے کا لحاظ بھی نہیں کرتا بلکہ دیکھنے میں تو یہ آیا ہے کہ جس قدر بڑا منصب اور عہدہ ہوتا ہے وقت اس کی غلطی کو  زیادہ سختی سے پکڑ تا ہے اور سخت سزا بھی دیتا ہے۔یہ جو وقت کی پابندی کرتے ہیں یہ وقت کے ساتھ نہیں اپنے ساتھ بھلا کرتے ہیں اور جو وقت کی پابندی نہیں کرتے وہ اپنا نقصان کرتے ہیں۔ کیونکہ جاتے لمحے واپس نہیں آتے اور جو لمحے آنے والے ہیں ان کاکسی کو معلوم نہیں اس لئے یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ بس ایک لمحہ ہی ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے، جس نے اس کا صحیح استعمال کیا وہ کامیاب اور جس نے اس کو ضائع کیا وہ خسارے میں رہا۔ہمارے ہاں تو کوئی اپنے آپ کو صاحب حیثیت اور طاقتور ثابت کرنے کیلئے سب سے پہلے وقت کی پابندی سے اپنے آپ کو مبرا کر دیتا ہے اور جتاتابھی ہے، ایک سرکاری  یا نجی ملازم اگر کسی پر اپنا رعب جھاڑتا ہے تو یہ کہہ کر کہ میرا تو جس وقت جی چاہتا ہے آفس جاتا ہوں اور جس وقت جی چاہتا ہے اٹھ کر گھر آجاتا ہوں، ایک طرح سے وہ وقت کی پابندی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ تو سب سے بڑی کمزوری ہے۔جو وقت کے ساتھ چلنا سیکھ جاتے ہیں وہ دوڑتے جاتے ہیں اور جو وقت کے ساتھ چلنے سے انکار کردیتے ہیں  وہ ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتے ہوئے تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ماہرین نفسیات نے وقت کی پابندی کے ان گنت فوائد بتائے ہیں۔ یعنی وقت کی پابندی کرنا اور نہ کرنا ہمارے نفسیاتی رویے کا اظہار ہے۔ان ماہرین کے مطابق درحقیقت کسی بھی فر د کا وقت کی پابندی نہ کرنا عدم احترام کی علامت سمجھا جاتا ہے اور کیریئر پر منفی انداز سے اثر انداز ہوتا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں دیگر افراد سے تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔جو لوگ وقت کے پابند ہوتے ہیں وہ گھڑی کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر ذہن میں بھی ایک الارم سیٹ کرلیتے ہیں، سائنسی طور پر ہمارے دماغ جسمانی گھڑی پر نظر رکھتے ہیں تاکہ روزمرہ کے معمولات کو ادا کیا جاسکے، بروقت پہنچنے کی عادت سے لوگوں کا ذہن طے شدہ شیڈول کے مطابق کام کرتا ہے اور جسم بھی اس کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ایسے افراد کسی بھی جگہ بروقت یا وقت سے پہلے پہنچتے ہیں کیونکہ وہ وقت کا خیال رکھ کر چلتے ہیں،

اگر کسی جگہ کا راستہ  بیسمنٹ میں طے ہوتا ہے تو وہ گھر سے چالیس منٹ پہلے نکلتے ہیں تاکہ غیر متوقع تاخیر سے بچا جاسکے۔کیونکہ ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوتی یہ کہ تاخیر سے پہنچنا بدتمیزی اور غرور کی علامت ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ذہن اور جسم کی گھڑی کا وقت کی پابندی کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کی مدد سے بروقت پہنچنے کے عادی افراد اپنے کاموں کی منصوبہ بندی پہلے سے کرلیتے ہیں اور سب چیزوں کو اس طرح منظم کرتے ہیں کہ کبھی ٹال مٹول یا بہانے بازی کی ضرورت نہ پڑے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے اکثر مسائل وقت کی پابندی نہ کرنے کے باعث ہیں۔ تاخیر سے دن کا آغاز کرنے کے بعد ہر جگہ تاخیر سے پہنچنا اور پھر افراتفری کی حالت میں انجام پانے والے کاموں پرخود بھی کڑھنا اور دوسروں کو بھی کڑھانا اسی کا نتیجہ ہے اور بد قسمتی سے ہمارے ہاں کام کی جگہ پر اکثر یہی مناظر ہوتے ہیں،دوسری صورت میں وقت کی پابندی سے سکون اور ٹھہراؤکا ماحول سامنے آتا ہے۔ماہرین نفسیات تو ٹینشن اور ذہنی تناؤ کو بھی وقت کی پابندی نہ کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، جس کام کیلئے جو وقت چاہئے اس سے کم وقت میں اسے کرنا یقینا ٹینشن اور تناؤ کا باعث ہوگا۔ عادت کوئی بھی آسانی سے نہیں چھوٹتی اور نہ ہی ہاتھ آتی ہے،مشکل سے ہی سہی تاہم وقت کی پابندی وہ صفت ہے کہ اگر یہ ہاتھ آجائے تو سمجھو بہت کچھ پالیا۔