چینی آلات اور برطانیہ کا خوف

خبر ہے کہ مائیکروسافٹ ،گوگل ایگزیکٹوز ، سائنسدانوں اور ٹیک انڈسٹری کے رہنماﺅں نے مصنوعی ذہانت سے بنی نوع انسان کو لاحق خطرات کے بارے میں ایک وارننگ جاری کی ہے۔ جس میں کہا گیا کہ مصنوعی ذہانت سے سماجی سطح کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں جنہیں کم کرنا عالمی ترجیح ہونی چاہئے۔اسی تناظر میں ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ آنے والے وقتوں میں 80فیصد جاب مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ کے قبضے میں چلے جائیںگے اور 80فیصد انسان بے روزگار ہوجائیںگے۔ اس خبر نے جن لوگوں میں زیادہ سنسنی اور خوف پھیلایا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو منصوعی ذہانت کے مقابلے میں اپنی ذہانت کی خوبیوں سے آشنا نہیں ہیں یا اپنی ذہانت کو منفی انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے ہاں اکثر اپنی ذہانت کو کام میں بہتری کی بجائے کام سے چھٹکارا پانے کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے اور بسا اوقات کام نہ کرنے کیلئے وہ اتنی مشقت اٹھالیتے ہیں کہ وہ کام اس سے آدھی مشقت میں ہوجاتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت ہر گز انسانوںکی تخلیقی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتی،لکیر کے فقیر کو مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونے کی ڈھیر ساری وجوہات ہیں تاہم تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد منصوعی ذہانت پر ہمیشہ حاوی رہیں گے۔یہ تو ضمنی باتیں ہوئیں اب آتے ہیں اصل خبر کی طرف جہاںیورپی یونین نے اس سال کے آخر تک مصنوعی ذہانت کے لئے قانون سازی کی امید ظاہر کی ہے جس میں اس کے استعمال سے متعلق ضابطے طے کیے جائیں گے۔اے آئی سیفٹی سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈین ہینڈریکس کا کہنا ہے کہ مختلف شعبوں سے منسلک تقریبا تمام اعلی یونیورسٹیوں کے بہت سے لوگ اس خطرے سے آگاہ بھی ہیں اورتشویش کا شکار بھی ۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر پیش رفت کو کچھ عرصے کے لئے روک دینا اور اس سے متعلق قواعد و ضوابط طے کرنا عالمی ترجیح ہونی چاہئے۔رپورٹ کے مطابق1,000 سے زیادہ محققین اور تکنیکی ماہرین نے اس سال کے شروع میں ایک طویل خط پر دستخط کئے تھے جس میں مصنوعی ذہانت کے فروغ پر چھ ماہ کےلئے وقفے کا مطالبہ کیا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ معاشرے اور انسانیت پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس طویل خط پر دستخط کرنے والوں میں ایلون مسک بھی شامل تھے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر اور سپیس ایکس جیسی کمپنیوں کے مالک ہیں۔خط پر ایٹمی سائنس، وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین نے بھی دستخط کئے ہیں جن میں مصنف بل میک کیبن بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی 1989میں شائع ہونے والی کتاب ”دی اینڈ آف نیچر“میں گلوبل وارمنگ کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔اب ایک اور خبر کی طرف آتے ہیں جس کا اندرون خانہ تعلق مصنوعی ذہانت سے ہی ہے اور خبر یہ ہے کہ برطانیہ نے چینی ساختہ نگرانی کے آلات ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے ۔رپورٹ کے مطابق لندن حکومت کے اس اقدام کا مقصد قومی سطح پر سرکاری تنصیبات کو چین کی جانب سے لاحق سکیورٹی خدشات کو دور کرنا ہے۔برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سوناک کا شمار ان عالمی رہنماﺅں میںہوتا ہے جو چین کو دنیا کی سکیورٹی اور خوشحالی کے لئے سب سے بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔ سوناک کی طرف سے پیش کردہ خدشات کے نتیجے میں ہی حساس سرکاری مقامات سے چینی ساختہ نگرانی کے آلات ہٹا دئیے جائیں گے۔دوسری طرف چین کا موقف ہے کہ وہ چینی کاروباری اداروں کو دبانے کے لئے قومی سلامتی کے تصور کو حد سے زیادہ وسیع بنا کرپیش کرنے کی سخت مخالفت کرتی ہے۔یعنی چین سمجھتا ہے کہ برطانیہ نے چین کی تجارتی سبقت کو ختم کرنے کا اس کا راستہ روکنے کیلئے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا سہارا لیا ہے جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں۔ اب آپ کہیں کے کہ اس رپورٹ کا تعلق مصنوعی ذہانت سے کیسے بنتا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ منصوعی ذہانت نے نگرانی کرنے والے آلات کو جس معیار یا مقام پر پہنچایا ہے تواور پھر ان آلات میں منصوعی ذہانت اگراگر چینی ذہانت کی پیداوار ہو تو پھر برطانوی حکومت کا خوفزدہ ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔