عید کی چھٹیاں

ان دنوں اگر آپ کو نجی اور سرکاری دفاتر میں کئی لوگ انتہائی دلچسپی سے کسی موضوع پر بات چیت کرتے نظر آئیں تو سمجھ جائیں کہ وہ چھٹیوں کے حوالے سے بات چیت کررہے ہیں کہ آنے والی عید پر کتنی چھٹیاں ملیں گی اور جن لوگوں کی ہفتہ وار چھٹیاں بھی اس کے ساتھ منسلک ہوں یعنی آگے یا پیچھے تو انہیں رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا اعزاز ان کو ملا ہو اور وہ بھی اتراتا نظر آتا ہے اور ایسے میں اگر کسی ساتھی کی ہفتہ وارچھٹی عید کی چھٹیوں نے نگل لی تو اس سے باقاعدہ تعزیت کی جاتی ہے اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے ، ساتھ ہی تسلی دی جاتی ہے کہ دیر ہے اندھیر نہیں، اس غم اور دکھ کے بدلے کوئی خوشی جلد مل سکتی ہے ۔جس طرح ہر شعبے کے اپنے اپنے ماہرین ہوتے ہیں، ہر دفتر میں ایک شخص ایسا بھی ہوتاہے کہ انہیں قدرت نے چھٹیوں کے حساب کتاب کی قابلیت اتنی دی ہوتی ہے کہ وہ سال بھر کی کیا آنے والے کئی سالوں کی چھٹیوں کا حساب آناً فاناً لگا لیتے ہیں اور جب دیکھو تو ایسے ماہرین تعطیلات کے گرد ہمہ وقت دفتری ملازمین کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس سے اپنے سال بھر کی چھٹیوں کا زائچہ ان سے تیارکرائے اور پھر اگر ان کے زائچے میں زیادہ سے زیادہ چھٹیاں ہیں تو وہ ان کے ایسے شکر گزار ہوجاتے ہیں بلکہ چائے پانی تک پلانے پر تیار ہوتے ہیں جیسے یہ چھٹیاں ماہر تعطیلات نے اپنی طرف سے تخلیق کی ہیں۔حال ہی میںسائنسی ترقی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ آنے والے دنوں میں مصنوعی ذہانت 80فیصد ملازمین کو بے روزگار کر سکتی ہے اور ان کی جگہ روبوٹ لیں گے جو مستعدی کے ساتھ وہ کام انجام دیں گے جو پہلے انسان انجام دیتے تھے۔ کچھ ساتھیوں نے کہا کہ اس خبر میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس خبر میں انکسار سے کام لیا گیا ہے، خاص کر ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے،جہاں کام سے زیادہ چھٹی کی اہمیت ہوتی ہے اور کام کی جگہ پر آتے ہی چھٹی کی تیاری شروع کی جاتی ہے ،اسی فیصد نہیں بلکہ سو فیصد ملازمتیں روبوٹس کے قبضے میں چلی جائیں گی کیونکہ منصوعی ذہانت سے لیس ان روبوٹس میں چھٹیوں کے شوقین ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملےں گے۔نہ ہی ان میں ماہرین تعطیلات ہوں گے بلکہ یہ بس کام، کام اور کام کرنا ہی جانتے ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آرام اور چھٹی سے ہی انسان اگلے دن کے کام کیلئے تیار ہوجاتاہے تاہم اسے کام کے مقابلے میں اس قدر ترجیح ملے کہ کام کی حیثیت ثانوی لگے تو پھر یقیناً یہ نا انصافی ہے ۔ایک ساتھی بچے کو سکول میں دئیے گئے مضمون کے حوالے سے مدد طلب کی ، موضوع تھا کہ ”مجھے چھٹیاں کیوں پسند ہیں“یہ موضوع بچے کو اس لئے دیا گیا تھا کہ استاد کی نظر میں یہ ایک دلچسپ موضوع تھا ، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ زیادہ دلچسپ ہوتا اگر موضوع یہ ہوتا کہ ”مجھے چھٹیاں کیوں پسند نہیں ہیں“ کیونکہ اس میں کیا شک ہے کہ چھٹیاں تو سب کو پسند ہیں اور اسکی وجہ بتانا بھی ضروری نہیں۔ بچے کیلئے یہ وجہ بھی کیا کم اہم ہے کہ چونکہ میرے ابو کو چھٹیاں پسند ہیں اس لئے مجھے بھی چھٹیاں پسند ہیںاور سب سے بڑھ کریہ کہ میرے ٹیچرز کو چھٹیاں پسند ہیں اس لئے مجھے بھی پسند ہیں۔ یعنی بچے کے پاس ایک نہیں سینکڑوں ہزاروں وجوہات ہیں چھٹیاں پسند ہونے کی ۔ دلچسپ موضوع تو یہ ہے کہ کوئی اس پر لکھے کہ مجھے چھٹیاں کیوں پسند نہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وجہ بتانے سے پہلے ہی لوگ اس کی دماغی صحت پر شک کرنا شروع کردیں گے اور انہیں ذہنی امراض کے معالج سے رجوع کرنے کا مشورہ دیں گے۔بہت سارے تو ہمدردی کا اظہا رکرنا شروع کر دیں گے کہ بیچارے کو کوئی ذہنی عارضہ لاحق ہے اسلئے اس کو چھٹیاں پسند نہیں،کوئی کہے گا کہ اس کو کسی کی بد دعا لگی ہے کہ اسے چھٹیاں پسند نہیں ۔غرض چھٹیاں پسند نہ کرنےوالی اس انوکھی مخلوق کے حوالے سے طرح طرح کے تبصرے ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ اسے دیکھنے کیلئے لوگ دور دراز سے آنا شروع کردیں چاہے اس کیلئے انہیں دفتر اور فیکٹری سے ایک ہفتے کی چھٹی کیوں نہ لینی پڑے۔ لوگ آکر اس انوکھی مخلوق کے ساتھ سیلفیاں لیں گے اور دوستوں کے ساتھ شیئر کریں گے کہ دنیا میں ایسی انوکھی مخلوق بھی ہے جس کو چھٹی پسند نہیں اور اسے کام میںایسا ہی مزہ آتاہے جیسے چھٹی میں۔