واہ رے عوام۔۔۔

ان دنوں سیاسی ہانڈیاں چڑھی ہوئی ہیں اور طرح طرح کے پکوان سامنے آرہے ہیں ،جو اشتہا انگیزبھی ہیں اورلذت سے بھرپور بھی تاہم ان پکوانوں سے خواص ہی مستفید ہوسکتے ہیں عوام نہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام تو خود ان پکوانوں کے اجزاءمیں سے ہیںبلکہ کہا جائے کہ ان سیاسی پکوانوں کا عوام کی شمولیت کے بغیر بننا ممکن ہی نہیں تو غلط نہیں ہوگا۔کارخانہ قدرت کا دستور نرالاہے، جاندار سے بے جان اور بے جان سے جاندار مخلوق جنم لیتی ہے، اس طرح معمولی مادے سے غیرمعمولی اور قیمتی اشیاءکا وجودمیں آنا بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ عوا م نامی شے بھی کچھ اس قسم کی ہے کہ یہ تو کہنے کو معمولی حیثیت کی ہے مگر اس سے غیر معمولی اشیاءوجود میں آتی ہیں۔عوام نامی مادے میں پانی کی خاصیت اس کی قدرو قیمت کا باعث ہے یعنی اسے جس برتن میں ڈالو اس کی شکل اختیار کرتا ہے اور آنچ ہلکی ہو یا تیز اس میں سخت سے سخت چیز گل جاتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی سستے داموں وطن عزیز کے طول و عرض میں فراوانی کے ساتھ دستیابی بھی اسے ایک کارآمد شے بنا رہی ہے ،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جمہوری معاشرے میں عوام سے بننے والے پکوان کھا کرہی کوئی حکمران بن سکتا ہے، اب تذکرہ کچھ جمہوری پکوانوں کا ہو جائے جن میںجلسہ‘ جلوس‘ جم غفیر‘ ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر اور منڈیٹ نامی قوت بخش پکوان قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ بالا پکوانوں کا استعمال جمہوریت میں مختلف ذائقوں کے ساتھ بدل بدل کر کیا جاتا ہے، جلسے جلوسوں سے ہٹ کر آج ہم جم غفیر، منڈیٹ اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر پر توجہ مرکوز رکھیںگے۔جم غفیر میںکثیر کا مادہ شامل ہے اوریہ ضمیر یا خمیر کے ہم وزن ہے۔جم غفیر میں عوام کی مقدار کتنی ہونی چاہئے اس کاانحصار باورچی خانے پرہے اگر حکومتی باورچی خانے میں تیار ہو تو دس بندوں سے بھی جم غفیر بن جاتا ہے اور اسکے چرچے بھی دور دور تک پھیل جاتے ہیں دوسری طرف حز ب اختلاف کے باورچی خانے میں لاکھوںعوام کے استعمال سے بھی جم غفیر بننے کاعمل ناکام ہوسکتا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جم غفیر میں ڈھلنے کی صلاحیت صرف عوام میں ہے، خواص اگر جم غفیر میں شامل ہوں تو اس سے جہاں جم غفیر کا ذائقہ خرب ہو جاتا ہے وہاں اس کے اثرات بھی کمزور پڑجاتے ہیں بلکہ اکثر ماہرین اسے جم غفیر تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں، اس لئے آپ نے کبھی حکمرانوں اور خواص کا جم غفیر نہیں دیکھا ہوگا۔ جم غفیر کے علاوہ عوام سے بننے والی جمہوری پکوانوں میں ٹھاٹھیںمارتے ہوئے سمندر کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تب ہی مفید اور صحت بخش ثابت ہوتا ہے۔ جب یہ سیاستدانوں کی مرضی کے مطابق تیار ہو اگر یہ حادثاتی طور پر بن گیا تو اس کے بننے سے سیاستدانوں کیلئے فائدے کی بجائے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کو وجود میں لانے کیلئے جن برتنوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میںپہلے ایک لاﺅڈ سپیکر سے ہی کام چل جاتا تھا تاہم اب اس کے لوازمات میں کنٹینر کا بھی اضافہ ہو گیا ہے، ماضی میں ٹھاٹے مارتے ہوئے سمندر میں طلاطم پیدا کرنے کیلئے انقلابی شاعروں کا سہارا لیا جاتا تھا ،جدید دور میںاب یہ ذمہ داری ڈی جے نے سنبھالی ہے۔اسی طرح قوت بخش ٹانک یا منڈیٹ نامی پکوان میں بھی عوام ایک اہم جز کی حیثیت سے شامل ہوتے ہیں ،تاہم مینڈیٹ بننے کے بعد اس سے عوام کو یوں نکالا جاتا ہے جیسے مکھن سے بال کیونکہ اس میں سے عوام کو نہ نکالا جائے تو اسے گلے سے نیچے اتارنا اور ہضم کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔مینڈیٹ کو آپ نشہ آور یاخواب آور غذابھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ حامل ہذا پھرکسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور ایک عجیب نشے کی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے اس حالت یہ جو کچھ بھی کرے وہ اسے مینڈیٹ کے کھاتے میں ڈالتا ہے اور یہ کیفیت تب تک رہتی ہے جب تک مینڈیٹ کے اثرات سر سے اتر نہیں جاتے ۔سیاسی ماہرین مینڈیٹ میں کئے گئے تمام کاموں کیلئے عوام کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کیونکہ بقول ان کے اگر عوام نہ ہوتے تو مینڈیٹ نہ بنتا اور مینڈیٹ نہ بنتا تو یہ سب کیا دھرا نہ ہوتا۔اس طرح اگر کہا جائے کہ انتخابی ہانڈی میں پکنے کے بعد اگر کوئی قابل قدر شے وجود میں آتی ہے تو وہ یہی مینڈیٹ ہے جس کے حصول کےلئے پہلے عوام کی نیندیں حرام کی جاتی ہیں اور پھراس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات سے عوام کی نیندیں اُڑائی جاتی ہیں۔