کچھ تذکرہ پوشیدہ لطیفوں کا

معلوم نہیں ہمارے حس مزاح کو کیا ہوگیا ہے کہ ہمیں لطیفے سن کر اور پڑھ کر بھی ہنسی نہیں آتی،اب اس کو کیا کہیے کہ ہمارے ارد گر د ہنسی مذاق کاسامان افراط سے موجود ہے اور ہم ہیں کہ سنجیدہ منہ بنائے ہوئے ہیں ، اگر آپ اخبار باقاعدگی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں یعنی مستقل قاری ہیں تو یقینا آپ کی نظروں سے یہ لطیفے گزرتے ہوں گے مگر چونکہ ان پر لکھا نہیں ہوتا کہ یہ لطیفہ ہے اس لئے انہیں پڑھ کر آپ ہنستے نہیں اور اسے سنجیدہ بیان سمجھ کر پڑھ لیتے ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں ایک لطیفہ ہوتاہے ،اب اگر اس کے ساتھ نوٹ میں لکھا جائے کہ یہ لطیفہ ہے تو پھر بیان دینے والے صاحب کے ناراض ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لئے بس آپ خود ہی سمجھا کریں کہ کونسا بیان حقیقت میں لطیفہ ہے جس پر ہنسنا آپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ لطیفے پر نہ ہنسنا ایک طرح سے اس کی حق تلفی ہے اور پھر ہمارے ہاں تو حقوق کی ادائیگی کا بہت خیال رکھا جاتا ہے‘اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ راستے میں ایک دوسرے کو روک روک کر پوچھا جاتا ہے کہ پلیز آپ کا مجھ پر کوئی حق ہے تو بتادیں کہ میں ادا کروں، اکثر حضرات کی صحت کی خرابی کا عقدہ یہی کھل کر سامنے آتا ہے کہ اپنی صحت کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسروں کے حقو ق کی ادائیگی میں جت گئے تھے۔ایک دکاندار کا اپنے گاہکوں کے حقوق کا خیال رکھنے کایہ عالم ہے کہ مہنگی چیز دینے کاتو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا،چاہے خود نقصان اٹھائے مگر گاہک کو بہترین چیز کم ترین قیمت پر دینا دکانداروں نے اپنے آپ پر لازم گردانا ہے۔یہ کیا آپ تو ہنسنے لگے،یہی تو مسئلہ ہے سنجیدہ بات کرو تو لوگ ہنستے ہیں اور لطیفہ سناﺅ تو سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف یعنی وہ اخباری بیانات جو اصل میں معیاری لطیفے ہوتے ہیں تاہم ان کی پہچان نہ ہونے سے ہم ان پر ہنسنے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں اور یوں ہاتھ آئی خوشی کو ہماری لا علمی کی نظر لگ جاتی ہے اور ہم اچھے خاصے لطیفے سے لطف اندوز ہونے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ آج میں آپ کوپوشیدہ لطیفوں کی چند نشانیاں بتاتا ہوں تاکہ آئندہ جب بھی آپ ان کو پڑھیں تو دل کھول کر ہنسیں۔ جس بیان میں بھی ”اجازت نہیں دی جائیگی“ کا جملہ ہو وہ در اصل لطیفہ ہے۔ ایسے بیانات اکثر سماج دشمن عناصر، ذخیرہ اندوزوں، گرانفروشوں اور امن و امان میں خلل ڈالنے والوں کو خبردار کرنے کیلئے دئیے جاتے ہیں کہ کہیں ذخیرہ اندوز، گرانفروش اور امن و امان میں خلل ڈالنے والے منہ اٹھا کر اجازت لینے ارباب اختیار کے پاس نہ پہنچ جائیں اس لئے ان پر پہلے سے واضح کیا جاتا ہے کہ انہیں ایسا کرنے کی ہر گز اجازت نہیںملے گی، ہو سکتا ہے کہ ہماری یاداشتوں سے قبل کسی دور میں ذخیرہ اندوزی، گرانفروشی، امن و مان میں خلل ڈالنے اور قانون توڑنے کیلئے خاص طور پر اجازت لی جاتی تھی جس کارواج وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوگیا ہے اور اب وہ سارے کام بلا اجازت ہو نے لگے ہیں، اس سے دونوں طرف فائدہ ہواہے ایک تو ارباب اختیار کو اجازت نامے جاری کرنے کی جھنجھٹ سے نجات ملی ہے تو دوسری طرف اجازت طلب کرنے والوں کو بھی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کی تکلیف سے چھٹکارا ملا ہے۔ ایک اور جملہ جو کسی بیان کو لطیفہ بنانے کیلے کافی ہے وہ ”کیفر کردار تک پہنچانا“ ہے ۔آپ کی ا طلاع کیلئے عرض ہے کہ ہم نے بہت تحقیق اور کوششوں کے بعد یہ سراغ لگا لیا ہے کہ یا تو کیفر کردار کوئی ایسا دور افتادہ مقام ہے جہاں تک پہنچنا ممکن نہیں یا پھرشاید وہاں پر موبائل کی سہولت موجود نہیں کہ وہاں پہنچنے کے بعدکوئی اطلاع کر سکے کہ میں کیفر کردارتک پہنچاہوں اور خیر خیریت سے ہوں ۔ اب ایک اور نشانی آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ جس سے ایک بیان کولطیفے کامقام حاصل ہوتا ہے وہ ”قلع قمع کرنا “ ہے اس لفظ کا مطلب ہم جو بھی سمجھیں تاہم اس کام کو یعنی قلع قمع کرنے کا عمل کسی نے آج تک دیکھا نہیں عین ممکن ہے کہ یہ واردات انتہائی رازداری سے کیا جاتا ہو کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیںہو اور پھر شواہد کو بھی شاید ماہر وارداتیے کی طرح مہارت سے مٹایا جاتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ قلع قمع کرنے کاعمل نیکی سمجھ کر سر انجام دیا جاتا ہو اور نیکی میں ریاکاری سے احتراز کرنا بہترین اصول ہے ۔ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ کہ قلع قمع ہونے کا کسی کو احساس نہیں ہوتا یعنی عین ممکن ہے کہ ہم میں سے بہت ساروں کا قلع قمع ہو چکا ہو اور ہمیں معلوم ہی نہ ہو۔تاہم اس قضئے میں پڑے بغیر بس آپ نے یہ سمجھنا ہے کہ آئندہ جس بیان میں کیفر کردار تک پہنچانے، اجازت نہ دینے یا قلع قمع کرنے کا ذکر ہو آپ نے دل کھول کر اس پر ہنسنا ہے کہ اس طرح آپ کا موڈ بھی خوشگوار ہوگا اور لطیفے کا حق بھی ادا ہوجائے۔اس کے ہٹ کر اور کئی نشانیاں بھی ہیں جو آئندہ کسی اور کالم میں آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔