کاروبار سیاست

یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ کاروباری دنیا میں اچھے خاصے کامیاب ٹرانسپورٹر کواچانک سیاست میں آنے کاخیال کیسے آیا، کیونکہ اکثر دیکھنے میںآتا ہے کہ سیاست کا عارضہ لاحق ہونے سے قبل کچھ پیشگی نشانیاں وارد ہو کر مستقبل کی خبر دے دیتی ہیں۔اس سلسلے میں اولین سٹیج پر انسان کو سماجی سرگرمیوں کابخار چڑھ جاتا ہے یوں ہی اسے نالیاں اور گلیاں ٹیڑھی لگنے لگتی ہیں جسے سیدھاکرنا اب ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہونے لگتاہے۔پہلے کمر کمر تک گلی میں کھڑے پانی میں سے خاموشی سے گزر جاتے منہ پر شکایت تک نہ لاتے اب اچانک چلو بھر پانی میں بھی ڈوبنے کا خوف لاحق ہوجاتاہے اور مختلف محکموں کی خبرلینے لگتے ہیں‘س طرح اچھے بھلے صحت مند شخص کو بھی ڈاکٹر کے پاس مفت میں لے جانے کی پیشکش کرنے لگتے ہیں،بسا اوقات عرصہ دراز پہلے وفات پانے والوں کی صحت کے بارے میں لواحقین سے دریافت فرماتے ہیں اور باخبر ہوکر عاجزی سے زیادہ ڈھٹائی کے ساتھ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور پھر ندامت کومہارت سے چھپانے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ وہ جو بننا چاہتے ہیں اس کے بھرپور حقدار ہیں ، اس کےساتھ ساتھ ان کی حرکات و سکنات میں بھی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں، پہلے جو سر کے اشارے سے بمشکل سلام کا جواب دیتے تھے کہ ہاتھ واسکٹ کی جیب سے نکالنے میں مشکل کا سامنا ہوتا تھا اب وہی ہاتھ دو بندوں کو دیکھ کر خود بخود ہوا میںلہرانے لگتا ہے۔ ان نشانیوں کو پرکھ کر آپ پیش گوئی کرسکتے ہیں کہ آسمان سیاست پر ایک اور ستارہ عنقریب چمکنے کو ہے ۔اب موصوف ٹرانسپورٹر صاحب میں یہ نشانیاں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تھیں اس لئے جب انہوں نے سیاست کی بات کی تو میں مذاق سمجھا تاہم جب انہوںنے اخبار میں اس حوالے سے باقاعدہ اشتہار دینے کا ارداہ ظاہر کیا تو معاملے کی سنجیدگی بلکہ سنگینی کااحساس ہوا۔اب انہوںنے جو اشتہار کسی سے لکھوا کر دکھایا تو مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ موصوف کاروبار سیاست کو سمجھتے ہیں یا نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ انہیں سیاست کو کاروبار سمجھنے میں مشکل کاسامنا ہرگز نہیں۔ معلوم نہیں ان کو یہ خیال کیسے آیا کہ جیسے سیاسی پارٹی بھی کوئی گاڑی ہے جس پر سواریاں چڑھتی اور اترتی ہیں اور گاڑی کے مالک کی جیبیں بھرتی ہیں یا جیسے یہ بھی گاڑیوں کی طرح شو روم میں بمعہ قائدین اور کارکنان کے برائے فروخت سجی ہوںگی ۔ان کے سیاسی جماعتوں کے حوالے سے خیالات جہاں میرے نزدیک قابل افسوس تھے وہاں حیران کن بھی، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ رہتے ہوئے انہوںنے سیاست کا اتنا گہرا مطالعہ کب اور کیسے کیا۔یہ اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب انہوںنے جیب سے کاغذ نکال کر مجھے کہا کہ میں اخبار میں ایک منافع بخش سیاسی جماعت خریدنے کیلئے اشتہار دینا چاہتا ہوں‘ اور پھر انہوںنے وہ اشتہار سامنے کردیا ، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں‘”ایک عدد سیاسی جماعت چالو حالت میں درکارہے‘ جو الیکشن کمیشن میں موجود ہویا نہیں کم از کم ملک کے مشہور شہروں میں در ودیوار پر ضرور موجود ہو۔ قیادت کی نسل در نسل منتقلی پارٹی آئین کا حصہ ہو‘ایسی پارٹی کوترجیح دی جائیگی جو کارکنوں کو حقیقی معنوں میں قیمتی اثاثہ سمجھتی ہو، یعنی پارٹی فروخت ہونےکی صورت میں کارکن بھی منقولہ اثاثہ جات میں شامل ہوں‘ پارٹی کا ڈھانچہ ایسا ہو کہ بوقت ضرورت اسے لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلایا جاسکے ،اس لئے الیکشن کمیشن کےساتھ ساتھ بازار حصص میں بھی پارٹی کی رجسٹریشن لازمی ہے‘ تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ پارٹی کی قدر و قیمت کااندازہ لگایا جا سکے اور بو قت ضرورت اسے کیش کیا جا سکے ۔جدید طرز سیاست کو مد نظر رکھتے ہوئے قائد کیلئے ایک عدد کنیٹنر کی موجودگی ضروری ہے ، جو جملہ احتجاجی ضروریات سے لیس ہو ‘اس میں پارٹی قائد کیلئے بھوک ہڑتال کی سہولت یعنی کئی ہفتوں کا کھانا سٹور کرنے کا بندوبست ہو‘(اب کھانے کے انتظام اور بھوک ہڑتال کا آپس میں کیا تعلق ہے،تو عین ممکن ہے کہ دنیائے سیاست میں عام کارکنوں کے برعکس قائدین کو پیٹ بھر کر بھوک ہڑتال کرنے کی سہولت میسر ہے) قائد کیلئے مخصوص کنٹینر میں ایسے شیشے لگے ہوں کہ جس سے دیکھنے پر باہر موجود افراد چھوٹے چھوٹے اور کئی گنا زیادہ نظر آئیں تاکہ کنٹینر میں آرام فرما قائد کا خون منوں ٹنوں کے حساب سے نہیں تو سیروں کے حساب سے ضرور بڑھتا رہے‘دلچسپی رکھنے والی پارٹیوں کے ساتھ باقی معاملات پارٹی فنڈز کی تفصیلات جاننے کے بعد بالمشافہ طے ہوں گے“۔تو جناب اشتہار پڑھنے کے بعد کیا آپ کو نہیں لگتا کہ موصوف کاروبار کےساتھ ساتھ سیاست میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں؟کم ازکم مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں۔