ہم سب کی کہانی

آپ میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو نہیں جانتا؟ کیا کہا؟بھلا ایسا بھی کوئی ہوگا جو اپنے آپ کونہیں جانتا ہوگا؟ جی ہاں بالکل، ہماری معاشرتی کہانی اسی پر قائم ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو نہیں جانتا اور دوسروں کوجانتا ہے بلکہ اسی کام میں لگا ہوا ہے کہ جس قدر دوسروں کو جاننے کیلئے وقت نکال سکتا ہے نکال لے۔ رات ہو یا دن، ہر گھڑی ہمارا ایک ہی کام ہے کہ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ جانیں۔ بلکہ جہاں تک ہوسکے نسل در نسل جان جائیںہر کوئی ایسے آلے کا متلاشی ہے کہ دوسروں کی زندگی کے خفیہ گوشو ں کو بے نقاب کرے۔تاہم یہ خوش قسمتی سمجھئے کہ یہ کام اس وقت بغیر کسی مہنگے اور جدید سائنسی آلے کے بخوبی ہورہاہے کیونکہ ہم نے اپنی آنکھوں اور کانوں کو بہت سے کارآمد کاموں سے فارغ کرکے دوسروں پر مرکوز کیا ہوا ہے اورپھر کسی کی کمزوریوں اور منفی پہلوﺅں کے بارے میں ہر کوئی آپ کو خلوص نیت سے اتنی معلومات دے دیگا کہ آپ سمیٹتے نہ سمیٹ سکیں خاص طور پر کسی کی شخصیت کے منفی پہلوﺅں کے بارے میں تو معلومات آپ کو اتنی آسانی سے ملیں گی گویا کہ وہ ہوا میں تیر تی رہتی ہیں اور ہر کس و ناکس کے ہاتھ لگنے کیلئے بے چین ہیں۔ کسی کی منفی معلومات یا اس کی کمزوریوں کو جاننے کیلئے آپ کو کان کھلے رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ،بلکہ یہ معلومات آپ کو بند کانوں سے بھی ملتی رہیں گی یایوں کہیے کہ یہ معلومات آپ کے کانوں میں ٹھونسی جاتی ہیں چاہیں آپ اس کو پسند کریں یا ناپسند اور پھرکسی کے بارے میں منفی باتوں اور اس کی کمزوریوں کا چرچا آپ کیوں ناپسند کریں گے ہم میں سے باقائمی ہوش و حواس تو کوئی ایسا نہیں کریگا تو پھرانجوائے کریں دوسروں کی کمزوریوں اور منفی معلومات کی نان سٹا پ ٹرانسمیشن ہر ایک کی زبان سے اور خاطر جمع رکھیں آپ کے سامنے کوئی آپ کی برائی نہیں کریگا، یہ یہاں کا مسلمہ اصول ہے کہ اگر آپ کی برانی کرنی ہے تو وہ آپ کی پیٹھ پیچھے ہوگی اور وہی کریگا جو ابھی آپ سے مل کر آپ کی تعریفیں اور دوسروں کی برائیاں کر کرکے آپ کو تفریح طبع فراہم کر رہا تھا اور آپ کا دیرینہ دوست اب بھی وہی کررہاہے مگر اس کے کردار بدل گئے ہیں جو تعریفی کلمات آپ کےلئے تھے اب اس میں کسی اور کا نام ڈالا گیا ہے یعنی اس شخص کا نام جو روبروہے اور جو منفی باتیں اور دوسروں کی برائیاں آپ کے سامنے ہوئی تھیں اب ان میں آپ کا اسم گرامی چمک رہا ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح آپ نے اپنے اس دوست کے بخئے ادھیڑنا شروع کردئیے ہیں جن سے ابھی آپ کی ملاقات ہوئی تھی اور جن کی تعریف میں آپ نے زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے ، جو چند لحظے پہلے بقول آپ کے دنیا کا ذہین ترین فر د تھا، جو جملہ اچھی صفات کامرقع تھا اور جن میں دور دور تک بری صفت ڈھونڈنے سے نہیں ملتی تھی ‘جوانتہائی ملنسار بھی تھا اور انتہائی خوش اخلاق بھی۔جن کی قابلیت مثالی تھی اس لئے تو وہ ایک مثالی پوسٹ پر تعینات ہے۔ اگر یاد ہو یہ باتیں اس وقت آپ کی زبان سے ادا ہوئی تھیں جب موصوف آپ کے سامنے تھا او ر آپ ایک دوسرے کی محبت میں ہلکان ہوئے جار ہے تھے۔ اب آپ کا دوست یکسر بدل گیا ہے کیونکہ وہ آپ کے سامنے نہیں ہے اور اب بقول آپ کے وہ ایک مختلف انسان کا روپ دھار چکے ہیں۔ جو بدزبان بھی ہے او ربد لحاظ بھی۔ بددیانت بھی اور بد دماغ بھی۔ اسے تو بات کرنے کا سلیقہ ہی نہیں اور نہ ہی اس نے اپنی لیاقت اور قابلیت سے کوئی جگہ بنائی ہے ۔ بقول آپ کے وہ جس سیٹ پر براجمان ہےں اس پر وہ اپنے چچا کی سفارش کے ذریعے آئے ہےں۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ اس سیٹ کی صفائی کے قابل بھی نہیں ۔ یہ ہمارے معاشرے کی ہر کردار کا کردار ہے اورہر کوئی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ اپنی تعریف کرو اور دوسروں کی برائی۔ اس لئے تو ہم اپنے آپ کو جانتے ہی نہیں، ہماری توجہ دوسروں کو جاننے پر مرکوز ہے اور ہمیں اپنے آپ کو جاننے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں تو دوسروں کے معاملات پر نظر رکھنے میں میں ہی مزہ آتا ہے۔اپنے کام پرتوجہ دینے کی بجائے دوسروں کے کام پر تنقید میں جو مزہ ہے وہ اپنے کام پر توجہ دینے میں کہاں۔ شاید باقی دنیا کے مقابلے میںاگر ہم پیچھے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے کام سے زیادہ دوسروں کے کام پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے کام میںمہارت پیدا کرنے کی بجائے دوسروں کے کام میں کیڑے نکالنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیںاور یوں دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہم ہیں کہ پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ مگر یہ تو ہم تب جانیں گے جب ہم اپنے آپ پر نظر ڈالیںاور ایساہم کبھی نہیں کریں گے۔