کورونا کے انکشافات

ایک صحافی کیلئے اس سے بڑھ کر کونسا موقع قیمتی اور نایاب ہو سکتا ہے کہ اسے ایسی ہستی کے خیالات و احساسات جاننے کا موقع ملے جس کے چاروں اور چرچے ہوں اور جس کا نام بچے بڑے کی زبان پر ہو، اس کے ساتھ ساتھ اپنی بے پایاں صلاحیتوں سے پوری دنیا پر دھاک بٹھا رکھی ہو۔دنیا کے طاقتور حکمران جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ان کے آگے بے بسی کی تصویر بن کر اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوں۔ ممالک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر ان میں یکسر تبدیلی لانے کی طاقت رکھتی ہو۔جی ہاں اس ہستی کانام ہے کورونا وائرس جس نے طاقتوروں کی طاقت کی دھجیاں اُڑا دیں اور بڑوں بڑوں کی بولتیاں بند کر دی ہیں او رجو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے ان کی ناک پر ماسک بٹھا دیا، اکثر صحافی اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ کورونا کے بارے میں کیا نیا انکشاف ہوتاہے اور وہ دوسروں تک پہنچائے مگر ہماری دلچسپی اس میں تھی کہ کورونا نے کس کے بارے میں کیا انکشاف کیا ہے اور اسے اپنے قارئین تک پہنچائیں ، ہمارے بارے میں تو کورونا کے خیالات یہ ہیں کہ ہم کسی حال میں بدلنے والے نہیںہیں، وہی کرتے ہیں جو جی میں آئے، بلکہ اکثر تو وہی کرتے ہیں جسے نہ کرنے کی ہدایت ہو اور وہ کبھی نہیں کرتے جسے کرنے کی ہدایت ہو ۔اگر سڑک کی دائیںجانب چلنے کی ہدایت نظر آئے تو جی مچلنے لگتا ہے کہ بائیں جانب چل کر دیکھتے ہیں کیونکہ جب منع کیا گیا ہے تو اس میں کوئی خاص مزہ ہوگا۔ اگر پھول توڑنے کی ممانعت ہے تو یہ جاننے کیلئے پھول توڑنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پھول توڑنے سے منع کرنے کے پیچھے کوئی غیروں کی سازش تو نہیں۔ اگر قطار میں کھڑے ہونے کی ہدایت ہوتو قطار میں ایک منٹ کھڑا ہونے پر چیونٹیاں سارے بدن پر رینگنے لگتی ہیں اور تب ہی چین آتا ہے جب قطار سے نکل کر اڑے ترچھے کھڑے ہوجائیں۔جی ہاں تو کورونا کے بقول ہم اگر اس سے کوئی اور سبق سیکھتے ہیں یا نہیں یہ اپنے آپ کو بدلنے اور نئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی صلاحیت ہی اپنے آپ میں پیدا کریں،جس کا مظاہرہ کورونا وائرس نے کئی ممالک میں کیا ہے۔ممالک کے تذکرے سے یاد آیا کہ کورونا نے کئی ممالک کے سربراہان کے بارے میںجو رائے قائم کی ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں، امریکی صدر کو تو کورونا نے جوتی کی نوک پر رکھتے ہوئے صدارتی الیکشن میں شکست فاش سے ہمکنار کر دیا ہے اور اس کی وجہ وہ توہین آمیز کلمات ہیں جو امریکی صدر نے کورونا کے شان میں کہے اور اسے چین کی سازش قرار دیا تھا، کورونا کا کہناہے کہ امریکی صدر ہو یا افریقی مزدور اس کےلئے سب برابر ہیں۔ وہ رنگ و نسل کے امتیاز کا قائل نہیں اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کورونا نے عالمی حکمرانوں میں امریکی صدر کو خاص طورپر نشانہ بنایا کہ وہ نسل پرستی اور تعصب کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھا۔جہاں تک بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی بات ہے تو کورونا نے اسے اپنے آپ سے زیادہ خطرناک وائرس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو تو دل بہت کرتا ہے کہ نریندر مودی پر بھی حملہ کرے تاہم فی الحال اپنے آپ کو نریندر مودی سے دور رکھا ہے کہ اس کے انتہا پسندی اور نسل پرستی کے وائرس کورونا سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اور کورونا تو خود کو بچانے کیلئے بھارتی وزیر اعظم کے آس پاس رہتے ہوئے ماسک لگا نے پر مجبور ہے تا کہ نریندر مودی کے جراثیم سے اپنے آپ کو بچائے۔ کورونا وائرس نے تو یہ بھی انکشاف کیا کہ جو بھی کورونا وائرس بھارتی وزیر اعظم کے آس پاس سے گزرے تو اسے کئی ہفتوں تک قرنطینہ میں رکھا جاتاہے تاکہ اسے مودی کے مضر اثرات سے بچایا جا سکے۔ کورونا نے میڈیا سے گلہ کیا کہ مجھے ویسے ہی بدنام کردیا ہے جبکہ زیادہ خطرناک اور مہلک وائرس تو نریندر مودی ہے۔ کورونا نے تو یہ پیغام بھی عالمی برداری کو دیا کورونا ویکسین کی بجائے مودی کی نسل پرستی اور انتہاپسندی کی مہلک جراثیم کا توڑ دریافت کرنے پر توجہ مرکوز کرے ۔