خوش فہمی اور غلط فہمی

ایک طرف کورونا کے وار تیز ہورہے ہیں تو دوسری طرف ہماری خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں میں مقابلہ تیز ہورہاہے، یہ سمجھ سے باہرہے کہ ہم خوش فہمی کا زیادہ شکار ہیں یا غلط فلمی کا۔ تاہم ان دونوں کو ہماری زندگی سے نکال دیا جائے تو سمجھوکہ ہماری جان نکال دی۔ ہماری زندگی تو رواں دواں ہے امیدوں اور خوش فہمیوں کے سہارے، گرمی میں یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ سردیوں میں لوڈ شیڈنگ کم ہوگی کیونکہ بجلی کا استعمال کم ہوگا اور سردی اس خوش فہمی کا شکار ہوکر گزار تے ہیں کہ گرمیوں میں شاید کچھ گزار ہ ہو گا کہ پانی زیادہ ہوگا اور بجلی کی پیداوار زیادہ ہوگی۔تاہم ہر موسم میں اس خوش فہمی کو ہوا ہوتا دیکھتے ہوئے بھی ہم اسے سال بہ سال پالتے ہیں کیونکہ یہ بھی نہ ہو تو پھر ہم کس چیز کے سہارے جئیں۔دیکھا جائے تو یہ خوش فہمی اصل میں غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور غلط فہمی کم فہمی سے جنم لیتی ہے جس کی ہمارے ہاں کبھی کمی نہیں رہی۔ ویسے یہ جان بوجھ کر انجان بننا اور کسی چیز کو نظر انداز کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔اب کورونا سامنے ہے تاہم لوگوں کودیکھ کر لگتا نہیں کہ کورونا نامی کوئی شے روئے زمین پرموجود ہے اور اسے ہماری کم فہمی کہا جا سکتا ہے، اور اگرکورونا نامی کوئی وائرس موجود بھی ہے تو وہ ہمارے ساتھ رعایت کریگا یہ اب ہماری خوش فہمی ہے ساتھ ایک اور خوش فہمی کو بھی ہم نے سامنے سجایا رکھا ہواہے تاکہ ہمیں کورونا کی حیثیت کا کہیں صحیح انداز نہ ہو جائے اور وہ خوش فہمی یہ ہے کہ ہماری قوت مدافعت زیادہ ہے اور یہ خوش فہمی ہم نے اپنی قوت مدافعت کے حوالے سے نہیں دماغ میں بٹھائے رکھی ہے جس طرح ہم نے فرض کر رکھا ہے کہ ہمارے پاس قوت مدافعت زیادہ ہے اسی طرح ہم نے یہ بھی فرض کر رکھا ہے کہ ہمارے پاس وقت بہت ہے کم از کم ہمارے چال چلن اور طور اطوار کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ اگر باقی دنیا میں دن رات چوبیس گھنٹے کے ہیں تو ہمارے ہاں یہ 80 ، 84 گھنٹے کی تو کم از کم ہیں۔ یا اگر نہیںبھی ہیں تو کیا ہوا نے ہم نے تویہی فرض کر لیاہے او ر اس میں کیا شک ہے کہ ہم جو فرض کرلیں اس کو کوئی مائی کالال جھٹلا نہیں سکتا۔یہاں دیکھو تو ہر کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ دل کھول کر ضائع کررہا ہے ہیں اور پھر بھی ختم ہونے میں نہیں آتااور ختم کیسے ہو، ہم نے فرض کرلیاہے کہ وقت کی کوئی کمی نہیں اور یہ ضائع کرنے سے ضائع نہیں ہوتی۔یہاں یہ تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ہم میں سے ہر کسی کو سرراہ سر بازار دیکھئے تو لگتا ہے کہ ہر کسی کے پاس وقت کم ہے اور اس کا وقت دوسروں سے بہت قیمتی بھی ہے ۔ تاہم ہمارے پاس وقت کی قدر و قیمت اورکمی اس وقت تک ہوتی ہے جب تک ہم کام کی جگہ پر نہ پہنچ جائیں۔ دفاتر جانے والے حضرات کو دیکھ لیجئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی یوں کوشش کریں گے کہ کوئی جان سے جائے مگر اس سے آگے نہ جائے،چلتی گاڑی میں چڑھے اور چلتی گاڑی سے چھلانگ لگائے، موٹر سائیکل کو سڑک پر جگہ نہ ملنے کی صورت میں فٹ پاتھ پر چڑھائے ، تاہم دفتر پہنچ کر وقت تھم جاتا ہے اور وہ صاحب اب اپنی سیٹ تک پہنچنے سے قبل ہر کسی سے تفصیلاً حال احوال پوچھنا، مصافحہ معانقہ کرنا، ملکی اور غیر ملکی واقعات پر ایک دوسرے کی رائے سے آگاہ ہو نا ضروری سمجھے گا۔ اور جتنے وقت میں وہ گھر سے دفتر پہنچتا ہے اس سے کہیں زیادہ وقت وہ دفتر کے گیٹ سے اپنی سیٹ تک پہنچنے میں ضرور لگائے گا ‘اب اپنی سیٹ پر پہنچ کر اسی صاحب کو دیکھئے تو یوں پاﺅں پر پاﺅں اٹکائے اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوگا اور اس کی شان و شوکت اور فراغت دیکھنے والی ہوتی ہے جیسے بادشاہ اپنی تخت پر براجماں ہو اور سب کچھ اس کے اشاروں پر ہوگا۔ فائل نے اگر آگے جانا ہے تو اسے کسی حرکت کی ضرورت نہیں خود بخود یہ کام ہوجائیگا۔ اگر کسی سائل کی درخواست پڑی ہے تو کوئی فکر کی بات نہیں ، اس کےلئے بہت وقت پڑا ہے درخواست بھی پڑی رہے اور اس میں کیا شک ہے کہ ہم فرائض کی ادائیگی میں اگر سست ہیں بھی تو فرض کرنے کا فریضہ بہت مستعدی سے ادا کرتے ہیں۔