اب کیا ہوگا؟

ملک کے چڑیا گھروں کو بند کرکے ان جانوروں کو ملک بدر کرنے کے مطالبات کئی حوالوں سے غور طلب ہیں اور ان کے دور رس اثرت مرتب ہونگے اور کئی طرح کے سوالات جنم لینے لگے ہیں۔ کہ کیا ان جانوروں کے جانے سے جو خلاءپیدا ہوگا وہ ہم پر کرسکتے ہیں۔ کچھ حلقے تو اس ضمن میں مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم میں ان جانوروں کی خلاءپر کرنے کی بھر پور صلاحیت ہے اوروہ اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کیلئے اخبارات میں چھپنے والی خبروں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاہم کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو یہ کہنے میں باک نہیں سمجھتے کہ ان جانوروں کے نہ ہونے سے جو خلاپیدا ہوگا وہ انسان پر ہی نہیں کر سکتے اور ساتھ وہ کئی سوال کرتے ہیں کہ ان جیسے صبر و تحمل کوہم کہاں سے لاسکتے ہیں۔ا پنی حدود میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا جو ڈھنگ چڑیا گھر میں دیکھنے کو ملتا تھا اب وہ نظارہ ہم کہاں کریں گے۔ دوسری طرف سیاست کی شدبد رکھنے والوں کو بھی فکر لاحق ہوگئی ہے کہ ان جانوروں کو آزادی کا حق ملنے کے بعد اگر ان کے حقوق کے رکھوالوں نے یہ بھی مطالبہ کر دیا کہ ان جانوروں کانام سیاسی کھیل کھیلنے کیلئے استعمال کرنا بھی ان کی حق تلفی ہے تو ہمارا تو سیاسی کھیل ہی رک جائیگا کیونکہ ان جانوروں کے نام گرامی پر تو ہماری سیاسی جماعتیں کارکنوں کا مورال بلند کرتی رہی ہیں، شیر جوان ‘ٹائیگر اور شاہین کہہ کر ہی ان کو احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں اور ساتھ ہی ان کے دماغ میں یہ بات بھی بٹھائی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو جنگل کا باسی سمجھ لیا کریں تو بہت سے کام آسان ہوجائیں گے،یعنی ان پر اب ملکی قانون کی بجائے جنگل کاقانون لاگو ہوگا۔ٹائیگر اور شیر کانام دے کران پر یہ بھی جتایا جاتا ہے کہ قائدین کی نظر میں اب وہ بہت خاص بن گئے ہیں۔اب کوئی ان کابال بیکا نہیں کرسکتا ،یہ تو جانور برادری کے سیاسی حلقوںپر اثرات کا تذکرتھا، چڑیا گھروں کو بند کرنے اور جانوروں کو ملک بدر کرنے کے اس سے ہٹ کر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جانور باہر جاکر زبان چلانا ‘ پریس کانفرنسیں کرنا شروع کریںکہ ہمیں جنگلوں میں بند رکھا گیا ورنہ ہم وہاں کا کایا پلٹ دیتے اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جہاں وہ تشریف لے گئے ہیں وہ ہمارے مقابلے میں ان کی باتوں کا زیادہ یقین کرتے ہیں، ملا نصیر الدین کی کہانی تو آپ نے سنی ہوگی کہ ایک مرتبہ ایک پڑوسی ان سے گدھا مانگنے آیا‘ ملا نصیر الدین دینے پر آمادہ نہیں تھے تو انکار کیا اور کہا کہ میرے پاس گدھا نہیں ہے، اتنے میں گھر سے گدھا با آواز خود اعلان کرنے لگا کہ وہ گھر میں موجود ہے، پس آدمی ملا نصیر الدین سے کہنے لگا کہ آپ کہتے ہیں آپ کے پاس گدھا نہیں اور اندر گھر سے گدھے کی آوازیں آرہی ہے تو ملانصیر الدین بگڑ کر بولے کہ جب میں کہہ رہا ہوں کہ گدھا نہیں ہے تو آپ نہیں مانتے اور گدھے کی بات کا یقین کرتے ہیں‘ یعنی ہمیں پھر ملا نصیر الدین کی طرح صفائیاں دینی پڑیں گی۔باہر تشریف لے جانے واے جانوروں کے اس الزام کا ہم کیا جواب دیں گے کہ ہم نے اپنے بہت سارے کرتوتوں کو حیوانیت کا نام دے کر ان جانوروں کی دل شکنی اور دل آزاری کرتے ہوئے اُلٹا ان کا بدنام کیا ہے حالانکہ ہمارے چال چلن میں ان حیوانوں کاکوئی ہاتھ نہیں تھا،اگر وہ جانور کہیں کہ ہم نے تو کبھی بھی غلط کام کرکے اسے انسانیت کا لبادہ نہیںپہنایا جبکہ انسان اچھے کاموں کو انسانیت قرار دے کر اس کا کریڈٹ خود لیتے ہیں اور غلط کام کر کے اسے حیوانیت کا نام دے کر ہمارے کھاتے میں ڈال دیتے ہیںتو پھر کیاان کی یہ بات سچ نہیںہوگی ‘دوسری بات یہ ہے کہ ان جانوروں کو پنجروںمیںبند دیکھ کر جو آزادی کااحساس ہوتا ہے پھر وہ کہاں سے آئیگا۔اب کون تاریخ کی کتابوں میں سر کھپائے اور بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرکے آزادی کی قدر و قیمت جانے۔ چند روپے کی ٹکٹ میںپنجروں میںبند جانور دیکھ کر یہ کام سستے میںبغیر مشقت کے ہو رہا ہے اور ساتھ لطف بھی آرہا ہے۔