آلے کا آلہ بگاڑ دیا

بہت سی ایجادات ایسی ہیں کہ جن کے ایجاد کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ جس مقصد کیلئے انہوںنے ایجاد کیا ہے اس سے ہٹ کر لوگ اس کو کن کن مقاصد کیلئے استعمال کریںگے اور لوگوں سے مراد اگر ہمیں ہی لیا جائے تو بات زیادہ آسانی سے سمجھ آجائے گی۔ دو پہیوں کی جس سواری کو ایک یا دو افراد کو ٹھکانے پہنچانے کے لئے بنایاگیا ہے وہ اب آٹھ آٹھ آنسو رو رہاہے کیونکہ اس پرسواریاں جو آٹھ بیٹھی ہیں اور بہ زبان حال وہ اپنے موجد کو کوس رہی ہیںاور فریاد کرتی ہیں کہ ہمیں کس لئے بنایا اویہ کہاں آ پھنسایا۔جو گاڑیاں سواریوں کیلئے بنی ہیں وہ منوں ٹنوں بوریوں کے انبار تلے دبی جار ہی ہیں اور جو بوریاں اٹھانے کیلئے بنی ہیں ان میں سواریوں کو اوپر تلے ٹھونسا ہوا ہے۔ اگر ہمارے ہاں کوئی ایسی عدالت بن جائے جو ان بے چاری گاڑیوں کی عرضیاں اور فریادیں سنیں تو ان عدالتوں کے احاطے میں ان کارخانوں سے زیادہ گاڑیاںموجود ہوں گی جہاں یہ بنائی جاتی ہیں۔جدید اور مفید آلات جو ہمارے ہاتھوں میں مقید ہوجاتے ہیں تو اس سے ہم بہت سارے کام لیتے ہیںعلاوہ اس کے جس کےلئے وہ بنا ہے۔اب موبائل فون کو ہی لیجئے،اس کے بنانے کا اہم مقصد وقت بچاناہے ہم نے اسے وقت لٹانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔کام کے آلے کو کھیل تماشوںسے بھر دیا ہے یعنی اس کے دماغ اور میموری کو بھی اپنے دماغ اور میموری کی طرح بنا دیاجس میں سب کچھ ہے بجائے کام کی باتوں کے۔ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ یہ نئے اور جدید آلات ہمارادماغ کھولتے اور ترقی و کامرانی کی نئی دنیا ﺅں میں لے جاتے ہم نے الٹااس کا دماغ کھول کر اس میں اپنی ذہنیت فٹ کردی یعنی دماغ ڈال کر اپنی من چاہی دنیا میں لے آئے ۔اب کوئی مائی کا لال ہے جو ان مفید آلات سے وہ کام لے سکے جن کیلئے ان کو بنایاگیااورہماری اس اہلیت میں تو کوئی شک نہیں کہ جس طرح ہمارا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اسی طرح آلے کا آلہ بھی بگاڑ دیں۔جتنے کام بنانے والے فنکشنز ہیں ان کو ڈیلیٹ کردیں اور ان کی جگہ کام بگاڑنے والے والے فنکشنز اکٹیویٹ کریں، وقت بچانے کے جو فنکشنز ہیں ان کی جگہ وقت ضائع کرنے والے فنکشنز فعال بنادیں۔لو جی ہو گیا کام، یعنی آلے کا آلہ بگاڑ دیا۔ یہ تو عوام کے ہاتھوں ایک ایجاد کی جو درگت بنتی ہے اس کی مثال پیش کی گئی ہے اب اگر خواص کے ہاتھوں کسی ایجاد کی درگت دیکھنی ہے تو وہ ہماری جمہوریت ہے، جس کی تعریف کسی نے یہ کی تھی کہ یہ وہ طرز حکومت ہے جو عوام کی ہو، عوام کے ذریعے ہو اور عوام کیلئے ہو۔مگر اب ہم نے اسے کیا بنا دیا ہے۔جی ہاں ہمارے ہاں اسے وہ آلہ بنادیا گیا ہے جس کے ذریعے حکمرانوں کی غلطیوں اور لغزشوں کو آسانی کے ساتھ عوام کی جھولی میں ڈالا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہلیان سیاست کو جمہوریت بطور نظام پسند ہے اور یہ ہمارے عین مزاج کے مطابق بھی ہے ہمارے اس قومی مزاج کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ ہم ہر غلطی دوسروں پر تھونپتے اور ہر اچھائی کاسہرا اپنے سر سجاتے ہیں۔ جتنی اچھائیاں ہیں وہ ہماری ذات سے وابستہ ہیں اور جتنی برائیاں اور کمزوریاں ہیں وہ ان لوگوں کی وجہ سے ہیں جو ہمارے علاوہ ہیں۔ یعنی ہم سب غلطیوں سے مبرا ہیں اور باقی سارے غلطیوں کے پتلے ہیں۔بالکل یہی مزاج ہم نے بنادیا ہے اپنی جمہوریت کاجس میں اپنے کئے کا ملبہ دوسروں پر ڈالنا آسان ہے ۔اگر حکومت کچھ نہیں کرتی تو وہ بغیر کسی جھجھک کے یہ کہہ لیتی ہے کہ ہمیں عوام نے دو تہائی اکثریت نہیںدی اس لئے ہم کچھ نہ کر سکے۔یہ الگ بات ہے کہ اس دوران نہ تو عوامی نمائندوں کے اخراجاتی بل دو تہائی اکثریت کے محتاج ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کےلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت پڑتی ہے۔اس لئے تو خوش نصیب ہیں وہ حکمران جن کو دو تہائی اکثریت نہیں ملی یعنی ایک طرح سے انہیں اس غم اور فکر سے نجات نصیب ہوئی کہ عوام نام کی کوئی مخلوق موجو د ہے جس کی خدمت بھی کرنی ہے۔یعنی اب ایک ہی کام رہ گیا ہے مدت اور اپنی ضرورت پوری کریں۔